سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو کے عروج و زوال کی کہانی سلمان فاروقی کی زبانی ( حصہ اول )


سردار نامہ .... وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com 
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی

پاکستان کی 76سالہ بیو رو کریسی کی تاریخ میں معروف بیو رو کریٹ سلمان فاروقی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ گزشتہ 7عشروں سے بیو رو کریسی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ان کو سپر بیو رو کریٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔انھوں نے پاکستان کے تمام ادوار کو نہایت ہی قریب سے دیکھا ہے۔وہ سابق وزیر اعظم محمد خان جنیجو کے سیکرٹری کے طو ر پر فرائض سر انجام دے چکے ہیں اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے پرنسپل سیکرٹری کے طور پر بھی کام کرچکے ہیں۔2008ءسے لے کر 2013ءتک آصف علی زرداری کے ساتھ بھی سیکرٹری کے طور پر کام کیا۔پاکستان کی سیاست کو انتہائی قریب سے جانتے ہیں ،اہم وزارتوں کے سیکرٹری بھی رہے ہیں۔ان کی کا رکردگی بھی ہر دور میں ہی قابل رشک رہی۔ان کی زندگی بھر کے تجربات پر مشتمل ان کی خود نوشت ڈئیر مسٹر جناح شہرہ آفاق تصنیف ہے جس میں کہ انھوں نے سابق وزیر اعظم محمد خان جنیجو کے عروج اور زوال نہا یت ہی خو بصورتی سے بیان کیا ہے۔یہ کتاب سیاست کے طالب علم کے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکتی ہے۔جنیجو صاحب کی شخصیت کے حوال سے بہت سی باتیں کی جاسکتی ہیں ،وہ نہایت ہی ہمہ گیر شخصیت تھے اور اصولوں کے پکے شخص تھے۔انھوں نے ہمیشہ ملکی مفادات کو ذاتی مفادات پر مقدم رکھا۔ میں نے بھی ذاتی طور پر ان کے ساتھ کام کیا ہے اور میں زاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ وہ جنیجو صاحب بہت ہی دیانت دار اور صلح جو شخصیت تھے کبھی کسی کی شکایت سننے سے انکار نہیں کرتے تھے لیکن یہ بات ضرور تھی کہ جو بھی شکایت لے کر آتا تھا اس کو اپنی شکایت کو ثابت کرنا پڑتا تھا ،نہایت ہی صلح پسند اور دیانت دار آدمی تھے۔میں نے کبھی نہیں سنا کہ انھوں نے کبھی اپنے بچوں کو اسلام آباد کی اقتدار کی راہ داریوں میں لانچ کیا ہو یا پھر کبھی ایسی کو ئی بات سننے کو ملی ہو کہ ان کے بچوں نے کسی سے کمیشن پکڑا ہو۔پیر پگارا کہا کرتے تھے کہ اسلام آباد ایک عجیب سی جگہ ہے اور جب بھٹو کو زندہ بھیجا گیا ،تو ان کی لاش واپس آئی اور جب ان کو ایک لاش بھجوائی تو اس کو زندہ کرکے بھیج دیا۔ جنیجو صاحب اتفاق رائے پیدا کرنے میں مہارت رکھتے تھے اور ان کی کو ئی مستقل ٹیم نہیں تھی سب کے ساتھ کام کرتے تھے۔ایک جانب مارشل لا ءتھا اور ایک جانب جمہوری سوچ تھی ،جنیجو صاحب ایک جمہوری وزیر اعظم تھے اور کسی بھی طریقے سے اتفاق رائے پیدا کرنے میں یقین رکھتے تھے۔جنیجو صاحب بھٹو کے بعد میرے خیال میں اس ملک کے سب سے بہترین وزیر اعظم تھے۔ ان کی سیاسی زندگی اس ملک کی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔سلمان فاروقی نے بھی ماضی کے کئی جھروکوں سے پردہ اٹھایا ہے ان پر بھی نظر ڈالتے ہیں، 1985 کے انتخابات کے بعد جنرل ضیاءکو وزیراعظم کا انتخاب کرنا پڑا۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ بھٹو کے قد کے ایک مقبول سندھی رہنما کو پھانسی دے دی گئی تھی، 70 کی دہائی میں فوج کے قبضے کے بعد سے سندھ میں ایم آر ڈی کی مزاحمت کی شدت کے باعث اس عہدے پر کسی سندھی کو مقرر کرنا سیاسی طور پر ایک مصلحت پر مبنی اقدام سمجھا گیا۔ وزارت عظمیٰ کا انتخاب الٰہی بخش سومرو یا محمد خان جونیجو میں سے کسی ایک کے درمیان ہی ہو نا تھا۔ سومرو ایک بیوروکریٹ تھے، شروع سے ہی ضیاءکی کابینہ کے رکن تھے، اور اسٹیبلشمنٹ کے قریب تھے۔ جونیجو اس سے قبل تقریباً 20 سال قبل مغربی پاکستان میں بطور وزیر خدمات انجام دے چکے تھے، اور پیر پگارا نے ان کی بہت زیادہ سفارش اور حمایت کی تھی۔ ضیاءایک ایسا وزیراعظم چاہتے تھے جو ان کی حکومت کو قانونی حیثیت فراہم کرتے ہوئے ان کی نظر میں رہے اور آخر کار انہوں نے جونیجو کا انتخاب کیا۔ جیسا کہ اس کے بعد کے واقعات ثابت کرنے والے تھے، جونیجو اس سے کہیں زیادہ آزاد اور ثابت قدم تھے جوکہ ضیاءالحق کی توقع تھی۔ضیاء اور جونیجو کے درمیان رسہ کشی وزیر اعظم کے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے اگلے دن سے شروع ہوئی۔ کاروبار کے قواعد کے تحت، وزیر اعظم تمام معاملات کا فیصلہ کرنے والا اختیار تھا اور صدر کا عہدہ بڑی حد تک رسمی ہوتا تھا، جیسا کہ ملکہ انگلینڈ یا ہندوستان کے صدر کی طرح ہوتا ہے۔بتایا گیا کہ جب جونیجو کی حلف برداری سے قبل سینئر بیوروکریٹ روئیداد خان نے یہ مسئلہ اٹھایا تو صدر ضیاءنے جواب دیا کہ وہ ہر چیز پر قابو پالیں گے۔'' شاید یہ اس لیے ممکن تھا کہ ضیاءکے پاس چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر اختیارات تھے اور ان سے سے تجاوز کیا گیا تھا، لیکن جب ضیاءنے جونیجو کو وزیر اعظم بنانے کے اپنے ارادے سے آگاہ کیا تو جونیجو نے پوچھاجناب صدر، آپ مارشل لاءکب ہٹانے والے ہیں؟'' اس وقت سے، ان کے تعلقات مسلسل نیچے کی طرف گئے۔اپنی وزارت عظمیٰ کے شروع میں، قومی اسمبلی میں ایک خطاب کے دوران، جونیجو نے ریمارکس دیئے کہ مارشل لاءاور جمہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ ضیاءنے ان ابتدائی علامات کی تعریف نہیں کی اور جنرل مجیب الرحمان کے ہاتھ سے چنے گئے انفارمیشن سیکرٹری نے ان ریمارکس کو پی ٹی وی ٹیلی کاسٹ سے خارج کر دیا۔جونیجو نے فوری طور پر مجیب رحمان کو تبدیل کردیا ، جو بیوروکریسی میں ضیاءکے قریبی ساتھیوں میں سے ایک سمجھے جاتے تھے۔یکم دسمبر 1985 کو لاہور میں مینار پاکستان پر جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے جونیجو نے مارشل لاءاٹھانے کا اعلان کیا۔سیاسی سرگرمیوں اور میڈیا پر سے پابندیاں بڑی حد تک ہٹا دی گئیں، بنیادی حقوق بحال ہو گئے اور جابرانہ ماحول جو چھایا ہوا تھا وہ ہلکا ہونا شروع ہو گیا۔ اس اقدام سے جونیجو کا اعتماد مضبوط ہوا اور وہ آزادی کے آثار ظاہر کرنے لگے۔ انھوںنے اپنے فیصلے اور ترجیحات کو بروئے کار لاتے ہوئے صدر کی طرف سے انہیں بھیجی گئی فائلوں کو نمٹانا شروع کیااور کہنے والے کہتے ہیں اور لکھنے والے لکھتے ہیں کہ یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جہاں سے جنیجو صاحب کے لیے مسائل شروع ہو ئے اور شاید ان کے زوال کی ابتدا بھی یہی سے ہو ئی۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر ماضی کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو آج کے حالات سے بہت مماثلت بھی پائی جاتی ہے اور یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور مقتدر حلقوںنے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا ہے اور جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملک معاشی ،سیاسی ،سماجی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے اور صورتحال خراب سے خراب تر ہو تی چلی جارہی ہے۔اگر ماضی سے کچھ سیکھیں گے تو آگے بڑھیں گے۔اس تحریر کو آئندہ ہفتے بھی جاری رکھیں گے۔

ای پیپر دی نیشن