”حکمران ۔کوشش اور دُعا“

یوں تو سال گھنٹوں کے حساب سے گزر رہے ہیں پر آج تو وقت کا اندازہ ہی نہیں ہو سکا۔ بس اہم کال نے غفلت میں ڈال دیا ۔ در حقیقت اہم کام تو صرف ”اصل مالک“ کے بابرکت دربار میں حاضری ہے بس چند ثانیوں کے لیے شیطان مردود نے جکڑ لیا کہ وقت کم ہے آج چھٹی کر لو مگر نا معلوم کیسے ایک طاقتور جھٹکے نے اُٹھایا ۔ بھاگم بھاگ وضو کر کے بھاگ اُٹھی ۔ قارئین یہ احوال ہے ”نماز تراویح “ کی ”ماہ مبارک“ میں جاری معمول کا ۔ آغاز سے کوشش رہی کہ فرض نماز سے پہلے ”مسجد “ پہنچ جاو¿ں تاکہ ”فرض نماز“ سے قبل” 4رکعات سنت“ سکون سے ادا ہو جائیں مگر آج تو گھر سے نکلتے ہی ”اذان“ کے مبارک کلمات کانوں میں پڑے تو فکر لاحق ہوگئی کہ بس اب ”فرض“ ہی پڑھ سکوں گی مگر نامعلوم کیسے پہنچ بھی گئی اور ”سنت“ بھی ادا کر لیں ۔ پوری نماز میں آغاز سے اختتام تک صاف نظر آرہا تھا کہ ایک طاقت نے اُٹھایا مسجد پہنچایا اور پوری نماز بمعہ تراویح طمانیت قلب سے پڑھوابھی دی۔ تمام وقت احساس غالب رہا کہ کہ کِسی طاقت کے بل پر محرومی سے بچا لیا گیا۔ واقعی معجزے ہوتے ہیں ۔ زندگی میں بارہا انسان کی ساری اہلیت صرف ارادہ میں ہے نیت کا اخلاص از حد ضروری ہے جب فانی انسان تہیہ کر لے تو ”رب کریم“ سب سنبھال لیتے ہیں۔ عطا فرماتے ہیں فضل کی بارش کے ساتھ آج کی نماز مکمل عطا ۔ رحمت کا مظہر تھی۔بخشش کی عکاس۔
”ترجمہ بلاشبہ طاقت ساری کی ساری اللہ ہی کہ پاس ہے “ سورة البقرا۔
رمضان المبارک میں شروع ”عاجز بندی“ کی کوشش کو محرومی سے بچانے کی مکمل طاقت صرف ”اصل مالک“ کے پاس تھی ۔ کِس کِس نعمت کا شکر ادا کریں۔ سب قولی و بدنی عبادتیں ۔ سب تعریفیں۔ تعظیم صرف ”رب رحمان ۔ رحیم ۔ کریم“ کو زیبا ہیں ”سبحان اللہ“ ایک ایسا بندہ یا بندی جس کے پاس نہ دنیاوی بااختیار عہدے ہیں نہ مال و دولت کے انگنت ذخائر بس معمولی اخلاص نیت پر آخرت کا توشہ پا سکتا ہے ۔ (کیونکہ ”اصل زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے“) تو قارئین وہ لوگ جو مال ۔ رتبہ ۔ طاقت میں بلند مقام کے حامل ہیں۔ حکمران ہیں جن کو کچھ پانے کے لیے کچھ بھی نہیں کرنا پڑتا (محتاج وہ بھی ہیں) بس آنکھ کا اشارہ ۔ طیارے ۔ رولز رائس حاضر۔ چند لمحوں کے فاصلہ کو طے کرنے کا راستہ بھی ریڈ کارپٹ ۔ کسقدرآسائش بھری زندگیاں اور کروڑوں نفوس پر برس ہا برس سے حکمران چلے آرہے خاندان در خاندان۔ سوچئیے یہ جتنا دنیاوی فضل ہے تو آخرت میں اُسی حساب سے جواب بھی دینا پڑے گا ۔دنیا کے آئین ۔ قانون جب چاہیں بدلنے کی طاقت رکھنے والے جب ارادہ کر لیں تو کیا اُن کا ”رب“ مدد نہیں فرمائے گا؟ کرنا کیا ہے اُس فضل ۔ عطا کا شکریہ ادا کرنے کے لیے صرف ہاتھ ہی پھیلانے ہیں مگر اغیار کے سامنے نہیں اُس ”اصل مالک“ کے سامنے جس ”ذات پاک“ نے اُن کو دنیاوی حکومتیں سونپی ہیں ۔ وسائل کی اول تو کمی نہیں چلئیے مان لیتے ہیں کہ زر کی قلت ہے تو انسان کے پاس سب سے بڑی قوت ”دُعا“ ہے قبولیت کا بھی وعدہ ہے اور کرنے والوں کے لیے پسندیدگی کا بھی سینکڑوں جگہ پیغام ہے۔ اور عادل ۔ انصاف پسند۔ نیک حکمرانوں کا تو ”اللہ تعالیٰ “ بہت اکرام فرماتے ہیں۔ غریب ترین بھی اخلاص دعا سے حکمران بنتے دنیا نے دیکھے ہیں تو جو حکمران ہیں مکمل طاقت رکھنے والے تو وہ کیوں نہیں ”مشرقوں ۔ مغربوں کے مالک“ کی طرف رجوع کرتے ۔ قرض غلامی کی زنجیریں ۔ اس بات کو حکمران بھی تسلیم کرتے ہیں اور رہا ”سود“ تو پھر کون اِس معاملہ میں جنگ لڑنے کی جر ا¿ت کر سکتا ہے ؟؟دنیا کے بہترین ذہین اشخاص ۔ سب سے زیادہ وسائل ۔ چار خوبصورت موسم ۔ اول نمبر فوج۔ دلیر سخی قوم۔ گھڑی گھرائی جنتوں جیسے پہاڑی علاقے ۔ شمالی علاقہ جات ۔ چترال ۔ جنت نظیر کشمیر ۔ میٹھے پانی کے جھرنے ۔ دریا ۔ سرسبز میدان ۔ چاول ۔ گندم کِس کِس نعمت کا ذکر کریں تو پھر کمی کہاں ہے ؟؟ 
قرضوں کا سلسلہ تو پھیلتا ہی جائے گا جب تک ہم اپنے وسائل کے بھرپور استعمال کا ارادہ نہیں کر لیتے ۔ قرض بھی عذاب اور ”سود“ تو سب عذابوں کا سردار۔ انسانی وجود فانی ۔ مملکتیں فانی ۔ دولت فانی ۔ دنیا عارضی سرائے گاہ۔ تو کِس میں اتنی قوت ہے کہ وہ عذابوں کو اپنے اوپر لاد سکتا ہے؟؟
بنگلہ دیش میں حکومتی سرپرستی میں بہترین ماحول ۔ جدید ترین مشینوں پر بلا خوف و خطر لاکھوں عورتیں گارمنٹس تیار کرتی ہیں اُجرت یقینی پر باعزت۔ نہ لائنوں میں لگ کر مفت مال کی خواری نہ کِسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی احتیاج ۔ حکومت کے اقدامات بھی راست عوام کی غیرت ۔ نفس بھی طاقتور ۔ ہمارے یہاں ہنر مند بنانے کی بجائے صدقات ۔ خیرات کے ذریعہ اکثریتی طبقہ کو نا اہل۔ کاہل کرنے کی سیکمیں زیادہ پسنددیدہ ہیں۔ ترجیح بحال نہیں حتیٰ کہ نجی خیراتی ادارے بھی مکمل بحالی میں چُنداں دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ اُن کا روزگار۔ ٹشن بھی مانگے ہوئے پرائے مال پراُستوار ہے۔ چھوٹی سے مثال کِسی بھی فلاحی اسکیم کو اُٹھا کر دیکھ لیں کم از کم مالیت ”اربوں روپے“ میں جاتی ہے اگر ”چار ارب“ ہوں بھی تو ”ایک ارب روپے“ کی حجم کی شاندار ”4گارمنٹس فیکٹریاں “کھڑی کرنا انتہائی آسان ہے حکومت کے لیے تو بالکل مشکل نہیں ۔ پہلے سے موجود اداروں کی ایکڑز پر محیط عمارتوں کا بہترین مصرف ۔بلڈنگز موجود ۔ اہلکار موجود ۔ سامان موجود بس آغاز کرنا ہے قوم کو بھکاری سے باعمل محنتی پاکستانی بنانے کا ۔ سینکڑوں ادارے اگرچہ اِس میدان میں روبہ عمل ہیں مگر نتائج مایوس کن صرف حکومت کی کاوش نتائج کو مثبت ۔ با ثمرات بنانے کی اہلیت رکھتی ہے جو کام ”حکمران“ کر سکتے ہیں وہ سینکڑوں ادارے۔ لاکھوں اشخاص مل کر بھی نہیں کر سکتے کیونکہ قوت نافذہ صرف ریاست کے پاس ہے سوچ لیا کہ بس اب مزید نہیں تو پھر آسمان کے دروازے مدد کے لیے کُھلتے سب دیکھیں گے۔ 

ای پیپر دی نیشن