معزز قارئین ! گزشتہ روز 21 رمضان مبارک کو پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمان سیّدنا علی مرتضیٰؓ کا یوم شہادت منا رہے تھے۔
18 ذوالحجہ 10 ہجری کو ”غدیر خم“ کے مقام پر حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم نے حضرت علی مرتضیٰ ؓ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے خطبے میں فرمایا کہ” جِس کا مَیں مولا ہوں۔ اس کا علیؓ بھی مولا ہے۔ یااللہ! آپ اس شخص کو دوست رکھیں جو علیؓ کو دوست رکھے اور جو علیؓ سے عداوت رکھے، آپ بھی اس سے عداوت رکھیں!“۔
عربی زبان میں مولا کے معنی ہیں ”آقا، سردار اور رفیق“۔ علاّمہ اقبال نے مولا علیؓ کے حوالے سے اپنے بارے کہا کہ ....
”بغض اصحابِ ثلاثہ سے ،نہیں اقبال کو!
دِق مگر اِک خارجی سے آ کے، مولائی ہوا!“
....O....
” نائب رسول فی الہند !“
خواجہ غریب نواز حضرت معین دّین چشتی اجمیری (1143ئ۔ 1236ئ) ” نائب رسول فی الہند “ کہلاتے تھے۔ معزز قارئین ! اولیاءاللہ کے کلام / بزرگوں کے کلام کو ”ملفوظات“ اس کتاب کو کہا جاتا ہے، جس میں کسی بزرگ کی کیفیت اسی کی اپنی زبانی لکھی گئی ہو۔ حضرت خواجہ غریب نواز کے پیر و مرشدکا اسم گرامی، حضرت خواجہ خواجگان، خواجہ عثمانی ہارونی (1107ئ۔ 1220ئ) ہے جن کے ملفوظات کا مقدس نام ہے....
” انیس ارواح !“
یعنی (فرشتوں یا روحوں سے انس ، محبت کرنے والا دوست ، رفیق یا غم خوار)۔ خواجہ غریب نواز نائب رسول فی الہند حضرت معین دّین چشتی بیان فرماتے ہیں کہ ”بندہ اپنے پیرو مرشد حضرت خواجہ خواجگان ،خواجہ عثمانی ہارونی کے حکم کے بموجب آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھااور جو کچھ آپ کی زبانِ گوہر فشاں سے سنتا، اس کو لکھ لیتا۔ یہ سب اٹھائیس مجلسوں پر منقسم ہے!“۔
معزز قارئین! مَیں نے تین ماہ پہلے از سر نو ” انیس ارواح “ کا مطالعہ شروع کِیا تھا اور مَیں اس کی چوتھی مجلس کے مطابق عرض حال کر رہا ہوں....
خواجہ غریب نواز نے فرمایا کہ ” ایک دِن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم تشریف فرما تھے اور صحابہ بھی آپ کی خدمت میں حاضر تھے کہ ”امیر مومنین ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھے اور عرض کِیا کہ ”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم! میرے پاس 40بردے (غلام یا کنیز یں) ہیں، مَیں نے 20 بردے خدا تعالیٰ کی رضا مندی کےلئے آزاد کر دئیے ہیں!“۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم نے دعائے خیر کی، اتنے میں مہتر (مخدوم) جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا کہ ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم! حکم الٰہی یہی ہے کہ ابوبکر صدیق ؓ کے جتنے بال ہیں آپ کی امت میں سے اسی قدر آدمیوں کو ہم نے دوزخ کی آگ سے نجات دِی اور اِسی قدر ثواب ابوبکر صدیقؓ نے حاصل کِیا!“۔
اس کے بعد فرمایا کہ”امیر مومنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھ کر آداب بجا لائے اور عرض کِیا کہ ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم!۔ میرے پاس 30 بردے ہیں، ان میں سے 15 مَیں نے خدا کی رضا کے لئے آزاد کردئیے ہیں!“۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم نے دعائے خیر کی، اتنے میں مہتر جبرائیل پھر اترے اور کہا کہ ”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم! فرمانِ الٰہی اِسی طرح پر ہے کہ ”جس قدر رگیں ان بردوں کے جسموں پر ہیں، اس سے پچاس گنا آدمی آپ امت کے مَیں نے دروزخ کی آگ سے آزاد کئے اور اِسی قدر ثواب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عنایت ہوا۔ “
اس کے بعد فرمایا کہ ” امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھ کر آداب بجا لائے اور عرض کِیا کہ ”میرے پاس بردے بہت ہیں ان میں سے مَیں نے 100 بردے خدا کی رضا کےلئے آزاد کر دئیے ہیں!“۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم نے دعائے خیر کی اور مہتر جبرائیلؑ نے حکم الٰہی اِس طرح بیان کِیا کہ ” یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم! جتنی رگیں اِن بردوں کے بدنوں پر ہیں، ان سے 100 گنا آدمی آپ کی امت کے بخشے گئے اور ثواب حضرت عثمانؓ کو عنایت ہوا! “۔
اس کے بعد خواجہ غریب نواز نے فرمایا! کہ ”امیر مومنین حضرت علی مرتضیٰؓ اٹھے اور آداب بجا کر عرض کِیا کہ ” یارسول اللہ! میرے پاس دنیا کی کوئی چیز نہیں ہے ، میرے پاس جان ہے سو مَیں نے وہ خدا پر قربان کی!“۔ یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ مہتر جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور کہا ”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم!۔ فرمانِ الٰہی یہی ہے کہ ” ہمارے علیؓ کے پاس دنیا کی کوئی چیز نہیں، ہم نے دنیا میں اٹھارہ ہزار ” عالم “ (جہان ) پیدا کئے ہیں اور آپ کی اور علیؓ کی رضا پر ہم نے ہر ”عالم“ میں سے دس ہزار کو دوزخ کی آگ سے نجات بخشی ! “۔
”کلامِ عاشق رسول علامہ محمد اقبال!“
عاشقِ رسول مصّور پاکستان علاّمہ محمد اقبال نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ....
بغض ، اصحابِ ثلاثہ سے نہیں اقبال کو!
دِق مگر اِک خارجی سے آ کے، مولائی ہوا!
.... O ....
اپنی ایک نظم میں علاّمہ اقبال نے کہا کہ....
خِیرہ نہ کرسکا مجھے، جلوہ دانشِ فرنگ!
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف!
....O....
یعنی۔ ”یورپ کے علم و حکمت کا جلوہ میری نگاہوں میں چکا چوند نہ پیدا کرسکا، اِس لئے کہ میری آنکھوں میں مدینہ منّورہ اور نجفِ اشرف کی خاک کا سرمہ لگا ہوا ہے۔ یعنی مَیں نے اِس طریق سے فیض حاصل کِیا جو رسول اکرم اِس دنبا میں لائے اور جِس کے فیضان کا ایک کرشمہ حضرت علیؓ تھے“۔ نجف۔ عراق کا ایک شہر جہاں حضرت علی مرتضیٰؓ کا روضہ مبارک ہے۔ اپنی ایک اور نظم میں علاّمہ اقبال نے کہا کہ ....
نجف میرا مدینہ ہے، مدینہ ہے میرا کعبہ!
مَیں بندہ اور کا ہوں، امّتِ شاہ ولایت ہوں!
(جاری ہے )۔