خالص انسان ہی خالص شاعر ہو سکتا ہے۔ میرے نزدیک یہ ممکن ہی نہیں کہ ناخالص انسان خالص شاعر ہو۔ انسانی درجات کی رفعت بھی اسی پر منحصر ہے کہ کوئی انسان کتنا خالص ہے۔ کثافت صرف انسان ہی نہیں بےجان اشیاءکا بھی درجہ گھٹا دیتی ہے۔ فطرت کو انسان کے خالص پن کامعیار بنا کے دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ کس قدر فطرت پر ہے اور کس قدر خلاف ِ فطرت۔ اگرچہ انسان کو ایک سماجی جانور کہا گیا ہے لیکن مجھے یہ بات ان ڈھکوسلوں کی طرح لگتی ہے جو فرضی تھیوریاں اور سلوگن گھڑنے والے عموماً گھڑتے رہتے ہیں کیونکہ صرف انسان ہی نہیں بلکہ بندر ، لومڑیاں ، شیر اور دیگر بےشمار جانوروں کی کیٹیگریز ہیں جو باقاعدہ گروہ کی شکل میں رہتے ہیں۔ پچھلے کوئی سالوں سے ادب میں بھی ایسے ڈھکوسلے چھوڑے گئے جس میں یہ بہت ڈھکوسلہ بہت عام ہوا کہ جناب کیا مصرعہ ہے گویا شعر پر داد دینے کے متوازی مصرعے پر داد دینے کو رواج دے کر مصرعہ سازی کو قابل ستائش عمل بنا کر پیش کیا گیا اور پھر ایسے کئی ناخالص لوگ بڑے شاعر قرار دے دیے گئے جو بنیادی طور پر محض مصرعہ تراش تھے۔ اس کی مزید وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ جیسے خالص دودھ کے مقابلے میں ڈبے والے پراسسڈ دودھ کو مارکیٹ میں لانچ کیا گیا اور اس کے اشتہار چلا چلا کے لوگوں کو یقین دلا دیا گیا کہ یہی دودھ آپ کی صحت اور نشوونما کا ضامن ہے۔
ہمارے ہاں پیکنگ والے ان شعراءکی مثالیں میں اکثر دیتا رہتا ہوں جن میں ادھر ادھر سے خیال ، مضامین حتیٰ کہ شعری در و بست تک چوری کرکے خود کو نابلد اور معصوم قسم کے خواتین و حضرات سے شاعر منوانے میں کامیاب ہیں جبکہ انکے مقابلے میں پروفیسر شاہد کمال جیسے خالص انسان ، خالص مدرس ، خالص نقاد اور خالص شاعر ان لوگوں کی صف میں شامل کر دیے جانے کے خوف سے خود کو شاعر بتاتے ہوئے بھی جھجھک جاتے ہیں۔
پروفیسر شاہد کمال اردوزبان پر کمال دسترس رکھنے والے ان اساتذہ میں سے ہیں جن کی تیزدھار لسانی پرکھ کی خداداد قابلیت کے سامنے بڑے بڑے زبان دان ڈھیر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اگر کوئی بھی تفاخر کسی قسم کے تعصب کو جنم دیے بغیر استوار ہو تو اسے تہذیب کہا جاتا ہے۔
پروفیسر شاہد کمال ہماری سماجی و ادبی تہذیب کے ان معدودے چند ورثاءمیں سے ایک ہیں جنہیں اپنی زندگیوں میں ذاتی انفرادی سطح پر بہت ساری قربانیاں دےکر تہذیب کو بچانا پڑ رہا ہے۔ ورنہ یہی کراچی جو ہماری اسلامی ، اردو زبان اور برصغیر کی تہذیب کے ماتھے کا جھومر تھا ، آج سرمایہ دارانہ نظام کے پروردہ گماشتوں کے ذریعے ہر سطح پر ناخالص کردیا گیا ہے۔ یہی کراچی جو گلستان ِ اردو ادب کہلاتا تھا آج ایک ایسا جوہڑ بنا دیا گیا ہے جہاں لٹریری فیسٹیول کے جھنڈے تلے ادبی مداریوں کا سالانہ جمعہ بازار لگتا ہے اور غیرمتوازن ہجوم اکٹھا کرکے بے معنی ادب و فن دشمن مصنوعی سرگرمیاں برپا کرکے انکا کریڈٹ لیا جاتا ہے کہ ہم یہ تماشاءگزشتہ سولہ سالوں سے مسلسل اور کامیابی کے ساتھ لگا رہے ہیں۔
لیکن ان کی بدنصیبی یہ ہے کہ آج بھی اس شور شرابے سے دور سلیم کوثر ، صابر ظفر ، احمد نوید اور پروفیسر شاہدکمال جیسے لوگ تخلیقی سرچشموں کو پوری روانی کے ساتھ جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔
شاہد کمال کی شاعری بنیادی طور پر انسان کے احسن ِ تقویم پر پیدا کیے جانے کے نظریے کی پاسداری کی شاعری ہے۔ وہ سمجھتے ہیں جب انسان کو فطرت کے خالص اور نیک اصول پر پیدا کیا گیا ہے تو اس میں آلائش کی گنجائش پیدا کرنا سماج کو آلودہ کرنے کا عمل ہے۔
کیا کروں شکوہءبے مہرءارباب ِ وفا
میرا سایہ مری قامت سے سِوا رہتا ہے۔
٭٭٭
ارزاں ہیں بہت اہل ِ ہنر شہر میں میرے
بِکتا ہے یہاں علم بھی آواز لگا کر
موجود ہے ہر چہرے میں اک دوسرا چہرا
ہم بات یہ سمجھے ہیں بہت دیر میں جا کر
آفاق کے ا±س پار ہے کیا صورت ِ ہستی
دیکھیں گے کسی روز یہ دیوار گرا کر
٭٭٭
خود کو زندانءشب کہہ کے پکارو لوگو
یا کھرچ دو ابھی مہتاب کے ما تھے سے گہن
٭٭٭
شاہد کمال کلاسیکی رکھ رکھاﺅ کے شاعر ہیں۔ بات کو ایمائیت سے کرنا اور بڑے سے بڑے اسرار کو منکشف کرتے ہوے بھی رمزیت کا خیال رکھنا ان کے شعری قرینے کا حصہ ہے۔ انکے شعری مجموعے ، ” مجھے اک بات کہنی ہے “ میں انکے جذباتی اور فکری ارتقاءکا مطالعہ بہت آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔ محبت، ہجر و وصال اور محبوب سے مکالمے کے مضامین بڑے واضع طور پر انسانی نظریے پر قائم ہونے اور حقیت ِ مطلق کی تلاش میں نکل پڑنے کے موضوعات لیے زینہ بہ زینہ ایک ارتقا?ی منظرنامے میں تبدیل ہوتے چلے آتے ہیں۔
غزلوں ، نظموں اور چند ہائیکو پر مشتمل یہ مجموعہ موضوعات کے لحاظ سے اتنا متنوع ، کیفیات کے معاملے میں اظہار کی شدت لیے ہوئے اور فنی حوالے سے اتنا مضبوط ہے کہ اسے ہم اپنے عہد کے مضبوط ترین شعری حوالوں میں پورے اعتماد سے پیش کر سکتے ہیں۔ اگرچہ میرے نزدیک کتاب میں موجود ہر غزل اور نظم کو حوالے کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے لیکن آپ درج ذیل غزل کو پورے مجموعے کی نمائندہ غزل کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔
کسی سے تیری منزل کا پتا پایا نہیں جاتا
تصور سے بھی اب اس دل کو بہلایا نہیں جاتا
چلے آتے ہیں وہ خود ہی مری بزم ِ تصور میں
یہ ان کا گھر ہے گھر والوں کو بلوایا نہیں جاتا
کھڑا ہوں درمیاں کب سے اطاعت اور بغاوت کے
ادھر آیا نہیں جاتا ا±دھر جایا نہیں جاتا
تصوف ایک مابعد الطبیعاتی غلطی ہے
کہ جو کچھ دیکھتے ہیں اس کو دکھلایا نہیں جاتا
مکاں سے لامکاں تک کا معمہ بھی عجب ٹھہرا
سمجھ میں آبھی جائے پھر بھی سمجھایا نہیں جاتا
تقاضا کررہی ہیں حیرتیں شرح معانی کا
محبت کا سبق اب ہم سے د±ہرایا نہیں جاتا
دھڑکتے دل سے آتی ہے صدائے نغمہءموجود
بگڑ کر خال و خد رہ جائیں سب حسنِ تمنا کے
سوال ِ وصل پر ایسے تو شرمایا نہیں جاتا
٭٭٭
شاہد کمال کے ہاں آپ کو مصرعے سازی یا مصرعے بازی پر انحصار کرتے ہوئے شعر نما چیز گھڑ کے دھوکہ دینے کے رویے کے مکمل برعکس پورا اور اصلی شعر ملتا ہے جس کے پیچھے نظریاتی و فلسفیانہ تشکیل کا پورا ابلاغ دکھائی دیتا ہے۔ یہی ہوتا ہے ایک خالص شاعر جو کسی بھی طرح کی جعلسازی اور خارجی فنی لوازمات کے سہاروں کے بغیر شعر تخلیق کرتا ہے۔ ادراکی تنقیدی دبستان کے اس نظریے کی ہمیشہ تائید ہوتی نظر آئی ہے کہ انسانی اوصاف میں کمتر ، مصنوعی یا ناخالص انسان کبھی اچھا ، خالص اور بڑا شاعر ہو ہی نہیں سکتا۔ شاہد کمال کی شعری عظمت کی وجہ یہی ہے کہ وہ ایک خالص اور بڑے انسان ہیں۔ آپ اگر کبھی شاہد کمال سے ملیں ، ان سے گفتگو کریں یا ان کی شاعری اور تنقیدی مضامین کا مطالعہ کریں تو ایک بات جس کا آپ کو شدت سے احساس ہوگا وہ یہ ہے کہ ہماری تہذیب کے ورثاءابھی موجود ہیں اور یہ کہ مصنوعی اردو کانفرنس مافیاءاور لٹریری فیسٹیولز ڈرامہ کراچی کو مکمل تباہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ مجھے یقین ہے جب تک سلیم کوثر ، صابر ظفر، احمد نوید اور شاہد کمال جیسے سچے، اعلیٰ اور بڑے تخلیق کار موجود ہیں کراچی بھی پورے قد سے کھڑا نظر آتا رہے گا اور اردو زبان و ادب بھی۔