وغیرہ وغیرہ ……عبداللہ طارق سہیل۔
یکے از مایہ ناز اثاثہ جات فیصل واڈا صاحب سینیٹر بنا دئیے گئے۔ غالباً یہ اب تک کی سہ ماہی بلکہ چوماہی کی سب سے خوش آئند خبر ہے۔ کیسے، چند سطروں بعد اس کا ذکر آئے گا لیکن پہلے پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما مولا بخش چانڈیو کا بیان ملاحظہ فرمائیے۔ اس بیان کا ملاحظہ فرمانا اگر ضروری نہیں تو بھی مفید ضرور ہے۔ فرمایا کہ بھٹو مرحوم زندہ ہوتے تو واوڈا صاحب کبھی (ہمارے ووٹوں سے) سینیٹر نہ بنتے۔ واوڈا صاحب کو پیپلز پارٹی نے کامل اتفاق رائے سے ووٹ دئیے تھے۔
چانڈیو صاحب کے بیان سے اس غلط العام بلکہ غلط العوام غلط فہمی کی درستگی ہو گئی کہ زندہ ہے بھٹو، زندہ ہے۔ یہ پیپلز پارٹی کا اب تک کا نعرہ تھا۔ اس کے ساتھ ایک اور نعرہ بھی تھا کہ کل بھی بھٹو زندہ تھا ، آج بھی بھٹو زندہ ہے۔ معلوم ہوا کہ دونوں نعرے غلط فہمی پر مبنی تھے، دراصل بھٹو صاحب وفات پا چکے ہیں۔ بھٹو صاحب کی وفات کب ہوئی؟۔ یہ راز بھی چانڈیو صاحب کھول دیں۔
پیپلز پارٹی کا ایک اور نعرہ بھی مقبول عام و خاص تھا۔ یہ کہ تم کتنے بھٹو مارو گے، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔ اوپر درج کئے گئے دونوں نعرے تو چانڈیو صاحب کے بیان کے بعد کالعدم ہو گئے کیونکہ یہ بیان سامنے آ گیا کہ بھٹو صاحب زندہ نہیں رہے۔ البتہ اس تیسرے نعرے کو کالعدم کرنے کی ضرورت نہیں، ذرا سی ترمیم کے بعد اسے نئی شکل دی جا سکتی ہے یعنی:
تم کتنے بھٹو مارو گے، ہر گھر سے واڈا نکلے گا
کچھ برس پہلے بھی یہ ترمیم شدہ نعرہ گونجا تھا کہ :
تم کتنے بھٹو مارو گے، ہر گھر سے سنجرانی نکلے گا۔
یہ تب کی بات ہے جب آصف زرداری صاحب نے سینٹ کا چیئرمین پیپلز پارٹی کا بنوانے کی مسلم لیگ کی تجویز مسترد کر دی تھی اور سنجرانی صاحب کو چیئرمین بنا دیا تھا۔ ہر دو حضرات کا تعلق ایک خاص پارٹی سے ہے۔ نام یاد نہیں آ رہا، شاید زور آور پارٹی یا اسی قسم کا نام ہے اور ہر دو پیپلز پارٹی سے جڑے ہوئے ہیں۔ مطلب پیپلز پارٹی کا ذکر جب بھی ہو گا، پس منظر میں زور آور پارٹی کی ’’شبیہہ‘‘ جھلک مارے گی۔
_____
واڈا صاحب کی سینیٹ میں آمد یوں خوش آئند ہے کہ اس سے ایک خلا پْر ہو جائے گا۔ کچھ عرصہ پہلے تک پی ٹی آئی کی ہرتان نواز شریف سے شروع ہوتی تھی اور انہی پر ختم ہوتی تھی۔ ایک سے ایک بھڑکیلی گالی ہر روز نہیں، ہر ساعت سننے کو ملتی تھی۔ پھر حالات نے پی ٹی آئی کی اس خوش گفتاری کا رخ موڑ کر میر جعفروں، میر صادقوں ، غداروں وغیرہ کی طرف موڑ دیا۔ یوں ایک خلا پیدا ہو گیا جسے پْر کرنے کی ضرورت ازحد شدت بلکہ شدید شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی تھی۔ اب اتنی ہی شدت سے یہ خلا پْر ہو گیا۔ واڈا صاحب ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر ہر شب نواز شریف اور ان کی دختر نیک اختر حال وزیراعلیٰ پنجاب کو تو ملّاحیاں سنا کر میلہ لوٹا کرتا تھے۔ اب یہ میلہ ٹی وی سکرینز کے علاوہ سینیٹ میں بھی سجا کرے گا۔ قوم محظوظ ہوا کرے گی اور ’’خلا‘‘ کا شکوہ بھی کافور ہو جائے گا۔
سینیٹ میں مسلم لیگ ن کے دو ارکان بھی موجود ہیں یعنی افنان اللہ اور مصدق ملک۔ ہرچند کہ یہ واڈا صاحب کی خوش گفتاری کے معیار کو کبھی نہیں پہنچ سکتے لیکن دل ناتواں کی حد تک کچھ نہ کچھ جواب آں غزل تو پیش خدمت کر ہی سکتے ہیں۔ سینیٹ میں مسلم لیگ ش کے ارکان کی تعداد 17 بتائی گئی ہے۔ وہ داد یا بیدار دینے کا صوابدیدی اختیار استعمال کر سکتے ہیں۔
_____
واڈا صاحب نے چھ مہینے کا نظام الاوقات دیا تھا، یعنی اس مدت کے گزرنے کے بعد وزیر اعظم تبدیل ہو جائے گا۔ اس میں سے ایک مہینہ تو گزر گیا۔ باقی پانچ رہ گئے۔ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا ، پیپلز پارٹی کی بے چینی بڑھتی جائے گی تا آنکہ عید کا چاند نظر آ جائے۔ کیونکہ، کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد وزیر اعظم پیپلز پارٹی کا ہو گا۔
یعنی کہ بلاول بھٹو زرداری۔۔ واڈا صاحب تک رسائی رکھنے والوں کا جواب ہے کہ نہیں۔ بلاول صاحب نہیں بلکہ تین میں سے ایک۔ تین میں سے پہلے تو اورنگ زیب صاحب ہیں، وزیر خزانہ، دوسرے ان سے بھی زور آور محسن نقوی صاحب جن کو زرداری صاحب ’’اپنا بچہ‘‘ ہونے کا تاحیات ’’ٹائٹل‘‘ عطا فرما چکے ہیں اور تیسرے فواد و واڈوا صاحب ہیں۔
فی الحال محسن نقوی صاحب زور آور ہیں لیکن پانچ مہینے بعد کیا پتہ، زور آوری میں اوّلیت واڈا صاحب کو مل جائے۔
خواجہ آصف تب کیا کریں گے؟۔ نئی زور آور حکومت میں شامل ہو جائیں گے یا سنّی اتحاد کونسل کا دامن پکڑنے کی کوشش کریں گے۔ زور آوروں سے قربت ان کی بھی بہت ہے، اسی لئے فرمایا کرتے تھے نواز شریف کو واپس نہیں آنا چاہیے۔
_____
عدالتی خطوطیاتی بحران پر پی ٹی آئی کی ایک اور بات مان لی گئی۔ یہ کہ سات رکنی بنچ نامنظور، فل کورٹ بنائو۔ گزشتہ روز سماعت میں چیف جسٹس نے بتا دیا، عید کے بعد فل کورٹ بنچ بن جائے گا۔
پی ٹی آئی کا پہلا مطالبہ تھا کہ پانچ رکنی بنچ بنا?۔ چیف صاحب نے دو کا اضافہ کر کے سات رکنی بنا دیا جس پر پی ٹی آئی نے کہا، نو__ ہمیں تو فل کورٹ چاہیے۔ یہ فرمائش بھی پوری کر دی گئی۔
فرمائش ابھی سے سامنے آ گئی، یہ کہ فل کورٹ منظور لیکن اس میں قاضی صاحب اور ان کے بعد والے سینئر ترین جسٹس منصور نامنظور__ کل کلاں یہ فرمائش بھی پوری کر دی گئی تو اگلی یعنی کہ چوتھی فرمائش بھی تیار ہے، یہ کہ اب فلاں اور فلاں اور فلاں یعنی کل تین عدد مزید اس میں سے نکالو، باقی فل کورٹ منظور۔ دیکھئے__ !
_____
پی ٹی آئی کی خاتون اوّل و آخر بشریٰ بی بی نے شکوہ کیا ہے کہ پہلے ان کے کھانے میں زہر دیا گیا۔ پھر انہیں ملنے والی شہد میں زہر ملایا گیا۔ اب پھر ان کے کھانے میں کوئی زہریلا ٹوائلٹ کلینر سلوشن ڈالا گیا۔ ان کی جان کو خطرہ ہے۔
ضمنی معلومات یہ ملیں کہ دیسی بکرا، دیسی ککّڑ، دیسی گھی، دیسی انڈے ہی نہیں، دیسی شہد بھی وی وی وی وی آئی پی جوڑے کو ملتا ہے۔ براہ کرم اس شہد کو گنڈاپور والا اسلامی شہد مت سمجھئے۔ بہرحال یہ تو ضمنی بات تھی، اصل بات کچھ اور ہے اور وہ ’’موکلات‘‘ کی نااہلی ہے۔
پی ٹی آئی کے سبھی چھوٹے بڑے بتایا کرتے تھے اور بتایا کرتے ہیں کہ محترمہ کے پاس ایسے ایسے بیر BEER یا VEER ، موکلات کا ہندی ناماور بھی موکل ہیں کہ آسمان میں تھگلی لگاتے اور پاتال کی خبر لاتے ہیں۔ ان مولات نے خبر کیوں نہ کی کہ بی بی خبردار، یہ مت کھانا، اس میں زہر ہے۔ اور یہ نااہلی ایک بار نہیں، تین بار ہوئی۔
محترمہ کو مشورہ ہے کہ فوراً ان نامعقول نالائق نااہل اور ہڈحرام موکلات اور بیر صاحبان کو برطرف کریں اور سوشل میڈیا پر عنوان ذیل سے ایک اشتہار جاری فرمائیں کہ :
ضرورت ایماندار موکلات
جلد از جلد اپنے سی ویز سمیت زیر دستخطی سے رابطہ کریں۔
ضرورت ایماندار موکلات۔
Apr 05, 2024