ڈاکٹر حافظ مسعود اظہر
رمضان المبار ک بہت ہی مقدس اور برکت والا مہینہ ہے اس مہینہ کے فضائل لاتعداد اور اس کی برکات بے شمار ہیں۔رمضان المبارک رحمت وبرکات کے حصول اوراللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔یہ گناہوں کو مٹادینے والا مہینہ ہے۔اس میں شیاطین قید کر دیئے جاتے ،جہنم کے دروازے بند اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اس مہینہ میں ایک نیکی کا اجر سات سو گنا تک بڑھ جاتا ہے۔ جس طرح روزہ عابد اور معبود کے درمیان ایک راز ہے ایسے ہی اس کا اجروثواب بھی اللہ براہ راست بندے کو عطا کرے گااور اس کو جنت کے آٹھ دروازوں میں سے ایک دروازہ جس کا نام باب الریان ہے اس دروازے میں سے گزارے گا۔
اس ماہ مبارک کے جودیگر فضائل ہیں ان کے علاوہ اس ماہ مقدس کی ایک اہم ترین فضلیت یہ ہے کہ اس میں قرآن مجید فرقان حمید کا نزول ہوا۔قرآن مجید فرقان حمید کتاب رشد وہدایت ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کے معجزوں میں سے ایک معجزہ ہے جو اس نے اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفی ؐکو عطافرمایا تھا۔قرآن مجید کی بعض سورتیں ایسی ہیں کہ جن کے متعلق جبریئلؑ نے نبی آخر الزمان ؐکو بتایا تھا کہ ان کے نزول کے لئے آسمان کے وہ دروازے کھولے گئے جو اس سے قبل کبھی بھی نہ کھولے گئے تھے۔
نزول قرآن مجید باقاعدہ ایک علم ہے جس پر علماء نے بہت کچھ لکھا ہے۔اس سلسلہ میں دو اصطلاحات ہیں پہلی اصطلاح ہے ’’نزول ‘‘ اور دوسری اصلاح ہے ’’تنزیل‘‘دونوں اصطلاحات اور ان کے فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔نزول کا مطلب ہے بلندی سے نیچے اترنا۔اور تنزیل کا مطلب ہے بتدریج کسی شے کو اوپر سے نیچے اتارنا ہے۔
نزول قرآن مجیدکے لئے یہ دونوں کلمات استعمال ہوئے ہیں۔قرآن کریم کے بارے میں یہ بات واضح ہے کہ اللہ نے اسے بتدریج خاتم المرسلین رسالت ماٰب ؐکے قلب مبارک پر بذریعہ جبریل امین اتارا تاکہ آپ لوگوں کو اس کی دعوت دیں۔سورہ بقرہ کی آیت مبارکہ کا ترجمہ ہے’’(ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور اس میں ہدایت کی روشن دلیلیںہیںاور حق کو ناحق سے پہچاننے کی۔‘‘اہل علم کے یہاں جو بات مشہور ہے اس کے مطابق جب سب سے پہلی وحی نبی کریم ؐ پر نازل ہوئی تو اس وقت آپؐ کی عمر مبارک چالیس برس تھی۔ یہ بات سیدنا ابن عباسؓ سے روایت کی جاتی ہے۔اوریہ وہ عمر ہوتی ہے کہ جس میں انسان اپنی رشد کی بلندی، عقل کے کمال اور ادراک کے اتمام کوپہنچتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن مجیدکولیکر نبی اکرمؐکے پاس جو فرشتے آتے تھے وہ جبرئیلؑ تھے۔سورہ الشعراء 192-195)کاترجمہ ہے۔اور بے شک و شبہ یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل فرمایا ہوا ہے۔ اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے، آپ کے دل پر اترا ہے کہ آپ آگاہ کر دینے والوں میں سے ہوجائیں۔
قران مجید کے نزول کے تین مراحل ہیں،نزول کے پہلے مرحلے میں قرآن مجید فرقان حمید مکمل طور پر لوح محفوظ میں لکھا گیا۔ یہ مرحلہ کتنے عرصہ میں مکمل ہوا اور اس کی تاریخ کیا ہے؟ یہ سب غیبی امور ہیں جو اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے پاس رکھے ہیں اور لوگوں کو ان سے مطلع نہیں فرمایا۔سورہ البروج کی آیت مبارکہ کا ترجمہ ہے ’’بلکہ وہ قرآن مجید ہے اور لوح محفوظ میں ہے‘‘۔
نزول ثانی وہ مرحلہ ہے جس میں پورے قرآن مجید کو لوح محفوظ سے ’’آسمان دنیا‘‘میں موجودبیت العزت میں منتقل کیا گیا۔۔ علماء نے لکھا ہے کہ لوح محفوظ سے قرآن مجید کا نزول آسمان دنیا میں موجود بیت العزت میں لیلۃ القدر میں ہوا۔
تیسرے مرحلے کے نزول کیلئے قرآن مجید میں لفظ تنزیل استعمال ہوا ہے۔ جس کے معنی ہیں تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کرنا۔ جبکہ انزال کے معنی کسی چیز کو ایک ہی دفعہ نازل کر دینا ہے۔
نزول قرآن مجیدکے اس مرحلے کا آغاز صحیح روایات کے مطابق رمضان المبارک میں اس وقت ہوا جب رسالت ماٰبؐ کی عمر مبارک چالیس برس تھی اورجس رات اس نزول کا آغاز ہوا وہ لیلۃ القدر تھی۔ اسی لئے اس رات کو شب قدر کا درجہ حاصل ہے ۔یعنی یہ بزرگی۔۔۔ شرافت ۔۔۔ منزلت ۔۔۔عزت۔۔۔۔بڑائی۔۔۔۔ اور مرتبہ والی رات ہے۔ جبکہ اس کا اصطلاحی مطلب ہے ماہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک مخصوص رات جو انتہائی عزت ومنزلت کی ہے۔