ایک معروف ٹی وی چینل پر پانچ سال کیلئے کرایہ پر حاصل کئے جانے والے بجلی گھروں کے حوالے سے گفتگو ہو رہی تھی۔ واپڈا کے سابق چیئرمین اور سابق نگران وزیراعلیٰ سرحد انجینئر شمس الملک مہمان خصوصی تھے۔ ان سے اس بارے میں سوال کیا گیا۔ تو انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر فرمایا کہ یہ کوتاہ اندیشی پر مبنی انتہائی تباہ کن سودا ہے۔ آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اس بظاہر ’’سٹاپ گیپ‘‘ انتظام کیلئے ملک و قوم کو کتنا زیر بار ہونا پڑے گا اور ان سے بجلی اتنی مہنگی دستیاب ہو گی کہ گھروں میں وارہ کھائے گی اور نہ صنعت کے کام آئے گی۔ بلکہ صنعت اور کاروبار کا بیڑا غرق کر دے گی۔ اس کا ریٹ 15-14 روپے فی یونٹ چلا جائے گا۔ انہوں نے پن بجلی سے مقابلہ کرتے ہوئے کہا تربیلا ڈیم سے آج بھی بجلی 49 پیسے فی یونٹ سے زیادہ نہیں ۔ یعنی ان کرائے کے بجلی گھروں سے ہم پن بجلی کی نسبت 20 سے 30 گنا زیادہ سرمایہ برباد کریں گے اور صنعت و زراعت دونوں سے ہاتھ بھی دھو لیں گے۔ اس دوران اینکر پرسن حکمران طبقے کے خلاف کرپشن کے الزامات عوام میں عدم اعتماد اور ایسے سودوں میں بھاری کمیشن کی طرف بھی واضح اشارے کرتا رہا۔
انجینئر شمس الملک سے بجلی کے لائن لاسز اور چوری کے حوالے سے سوال کیا گیا کہ آخر اس کا بھی کوئی حل ہے؟انہوں نے فرمایا اگر بجلی سستی ہو گی۔ تو چوری خود بخود کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہو جائے گی۔ لیکن بجلی جتنی مہنگی ہوتی جائے گی۔ اسی نسبت سے اس کی چوری بڑھتی جائے گی اور اسے روکنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔
انجینئر شمس الملک اپنی نجی گفتگو میں سخت آزردہ خاطر تھے کہ حکومت کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں تاخیر سے مجرمانہ غفلت سے کام لے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کالا باغ ڈیم اس ملک کے عوام کی زندگی اور بقا کا مسئلہ ہے۔ اگر یہ ڈیم تعمیر نہیں کیا جاتا۔ تو اگلے 10-5 سال میں ہماری زراعت اور صنعت دونوں تباہ ہو کر رہ جائیں گی۔ اس پس منظر سے ڈرتا ہوں جب لوگ گھاس کھانے پر مجبور ہو جائیں گے! یہ حکومت خدا کا خوف کرے!آج ایک بڑے قومی اخبار کے صفحہ اول پر کالا باغ ڈیم کے حوالے سے ایک دلچسپ کارٹون نظر سے گزرا۔کیپشن ہے۔ ’’کالا باغ ڈیم نہ بنا تو… دس سال بعد؟‘‘کارٹون کے دو حصے ہیں۔ ایک میں ایک بنک دکھایا گیا ہے جس پر بورڈ آویزاں ہے ’’یہاں صرف بجلی کے بل جمع ہوتے ہیں‘‘ نیچے بجلی کا ریٹ فی یونٹ پچاس روپے درج ہے۔’’IN‘‘ والے دروازے سے ایک صارف بل کی رقم کی بھاری گھٹڑی کمر پر اٹھائے اندر داخل ہوتا ہے۔ وزن سے اس کی کمر دوہری ہو رہی ہے۔ OUT کے دروازے سے وہ یاس و حسرت کی تصویر بنا باہر نکل رہا ہے۔
کارٹون کا دوسرا منظر ہوٹل کا کچن ہے۔
مینو کارڈ پر آج کی ڈشیں درج ہیں۔
(i) گھاس ڈرائی (ii) گھاس سوپ (iii) گھاس روسٹ (iv) گھاس کریم اور کسٹمر صاحبان مزے اڑا رہے ہیں۔ایک اخبار کی رپورٹ میں یہ نوید مسرت سنائی گئی ہے کہ ’ن‘ لیگ نے ’’کالا باغ ڈیم بناؤ‘‘ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جماعت بجلی کے بحران کے حل کیلئے ’’کالا باغ ڈیم بناؤ‘‘ ملک گیر مہم چلا کر تمام صوبوں کے عوام اور لیڈروں کو ڈیم کی تعمیر پر راضی کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ (ق) کے دونوں دھڑوں کے اہم رہنماؤں نے بھی ’ن‘ لیگ کو ساتھ دینے کا عندیہ دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی حکومت کالا باغ ڈیم کو قصہ پارینہ قرار دے چکی تھی مگر بجلی بحران پر عوام کو مطمئن کرنے میں ناکام رہی ہے۔ نامہ نگار کے مطابق اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم لیگ کی قیادت نے کالا باغ ڈیم کی اہمیت پر مختلف جماعتوں اور صوبوں کو راضی کرنے کی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مزید معلوم ہوا کہ ’ن‘ لیگ‘ پیپلز پارٹی کو بھی راضی اور آمادہ کرنے کی کوشش کرے گی۔
جہاں تک مسلم لیگ (ق) کا تعلق ہے۔ اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں کالا باغ ڈیم کے حوالے سے ان کی فروگزاشت‘ غفلت اور کم حمتی جو بھی کہہ لیں۔ بجا ہے مگر معلوم ہوتا ہے۔ اب ان کو اس کا شدت سے احساس ہے۔ آج (26 جولائی) کو ہی ایک قومی اخبار میں ق لیگ کے لیڈر چودھری مونس الٰہی ایم پی اے کا اس حوالے سے بڑا زور دار بیان نظر سے گزرا ہے۔ کہتے ہیں۔’’کالا باغ ڈیم روشن پاکستان کی ضمانت ہے۔ اس کی تعمیر میں تاخیر قوم کیلئے صدیوں کی سزا بن جائے گی۔ توانائی کے بحران کا حل کرائے کے بجلی گھروں میں نہیں۔ بلکہ اس کا مستقل حل کالا باغ ڈیم سمیت تمام بڑے آبی ذخائر کی تعمیر میں ہے۔ آج پاکستان کو پاور ویژن رکھنے والی جرأت مند لیڈر شپ کی ضرورت ہے۔ جو لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے ساتھ ساتھ زرعی و صنعتی ضروریات پورا کرنے کیلئے پانی اور توانائی کے وافر ذخائر مہیا کر سکے۔ پاکستان مسلم لیگ کے سیاسی ایجنڈے پر کالا باغ ڈیم کی تعمیر ہمیشہ سرفہرست رہی ہے۔ جبکہ اقتدار میں آتے ہی ’’ن‘‘ لیگ نے یو ٹرن لیتے ہوئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو اپنے منشور سے حذف کر دیا ہم ’ن‘ لیگ سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دیتے ہیں کہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں کالا باغ ڈیم پر قومی اتفاق رائے کے ٹوٹے ہوئے سلسلے کو بحال کریں اور اس کی بلاتاخیر تعمیر کو یقینی بنائیں۔ اگر مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) مل کر اس مسئلے کے حل کیلئے کمر بستہ ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس مقصد میں کامیاب نہ ہوں۔
اگر دوسرے صوبے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کریں۔ تو ایک کالم میں ملک کے آبی ذخائر ماہرین کی طرف سے یہ تجویز پیش کر چکا ہوں کہ ایسی صورت میں پنجاب دریائے سندھ میں اپنے حصے کے پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے کالا باغ ڈیم کا سائز کم رکھ کر ڈیم تعمیر کر لے۔ دوسرے صوبوں کے حصے کا پانی ان کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے۔ پنجاب کے ڈیم میں یہ گنجائش ہو کہ جب دوسرے صوبے بھی اپنا پانی سٹور کرنے پر راضی ہو جائیں تو ڈیم کو فل سائز تک کر لیا جائے۔ صرف پنجاب کے حصے کا پانی سٹور کرنے کیلئے مجوزہ ڈیم کی تعمیر میں 3 سال سے زیادہ عرصہ درکار نہیں ہو گا۔ سائیٹ پر تمام انفراسٹرکچر موجود ہے۔