چودھری شجاعت حسین کی اکثر باتوں کی طرح اس بات میں بھی بڑا وزن ہے کہ مارشل لا کا راستہ روکا نہیں جا سکتا۔ آپ کی یہ بات بھی کافی دلچسپ ہے کہ مارشل لا لگانے کیلئے یار لوگوں کو صرف دو عدد ٹرک اور ایک جیپ درکار ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج سے دس بارہ سال ادھر تک تو صورتحال تقریباً یہی ہوا کرتی تھی مگر آج معاملہ قدرے مختلف ہے۔ آج میڈیا نے معاملات کو جس مقام پر پہنچا دیا ہے، اس کے پیش نظر اب محض ایک جیپ اور دو ٹرکوں سے بات نہیں بن سکتی۔ ویسے چودھری صاحب نے گاڑیوں کے مذکورہ کارواں میں اپنی سیاہ مرسیڈیز شامل نہیں کی جو ہر ’’مارشل لائی موٹر کیڈ‘‘ کا حصہ ہوا کرتی ہے۔ چنانچہ مورخ جب بھی اس قافلے کا ذکر کرے گا، وہ دو ٹرکوں اور ایک جیپ کے ساتھ چودھری شجاعت کی گاڑی، پیر پگاڑا کے تانگے اور شریف الدین پیرزادہ کی وہیل چیئر کو بھی یاد رکھے گا!
پرویز مشرف کا دور اپنی دیگر تباہ کاریوں کے ساتھ ساتھ 23 ارب ڈالر کی اس ’’تُھک‘‘ کی وجہ سے بھی یاد رکھا جائے گا جو نج کاری کے نام پر سرکار کو لگی۔ ایک عدد بنک اور ایک دو کمپنیوں کی فروخت میں شوکت عزیز نے مشرف کے ساتھ مل کر وہ ’’ہنیر‘‘ ڈالا ہے کہ جس کی مثال پچھلے کسی دور میں نہیں ملتی۔ زیادہ تفصیل میں جانے کا نہ تو موقعہ ہے اور نہ ہی ہمارے پاس وقت، صرف اتنا ہی کافی ہے کہ وہ بنک ساڑھے بائیس ارب روپے یعنی کوڑیوں کے بھائو بیچ دیا گیا جس کے اپنے اثاثوں کی مالیت کم از کم ساڑھے چار سو ارب تھی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ان کے دیگر رفقائے کار سے گزارش ہے کہ چلیں اگر آپ لوگ اتنے ہی مجبور ہیں تو مشرف پر آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ مت چلائیں مگر خدارا ان دونوں چور کے پتروں سے کم از کم اس ’’ڈانگ‘‘ کا حساب تو ہمیں لینے دیں جو یہ ’’انھی کے گھر‘‘ میں پھیرتے رہے ہیں، اسی دور کے کم از کم پچاس بیورو کریٹ دس جرنیل اور دو سو ایجنٹ ایسے ہیں کہ جنہیں صرف ایک مرتبہ قریبی تھانے بلا کر ان کے سامنے کسی عادی چور کو ایک ہلکا سا پانجہ بھی لگوا دیا جائے تو بخدا ان احباب کے آف شور بنک اکاؤنٹس سے پاکستان کا آدھے سے زیادہ بیرونی قرضہ اتارا جا سکتا ہے۔
خدا کے لئے ہمیں مشرف کے سابق ساتھیوں اور دور حاضر کے سفید پوشوں سے منگلا ڈیم توسیعی منصوبے کے تحت کی گئی اربوں ڈالر کی لوٹ مار کا حساب بھی لینے دیں۔ ریلوے انجن اور بوگیوں کے نام پر لی گئی اربوں کی کک بیک بارے بھی ہمیں پوچھ گچھ کر لینے دیں کیونکہ مذکورہ معاملے میں مبینہ طور پر ملوث مشرف کے وہ دونوں وزیر ابھی زندہ ہیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ دندناتے پھرتے ہیں، پانچ چار سال کا توقف مزید ہوا تو دونوں لد جائیں گے اور پھر ان کا نام صرف روز محشر ہی پکارا جائے گا مگر اس غریب عوام کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ ان کے بے شمار خفیہ اور علانیہ بچے غریب عوام کے پیسوں سے بنی ناجائز جائیداد کے لاتعداد بٹوارے کر لیں گے اور بے چارے عوام محض منہ ہی دیکھتے جائیں گے۔
ہمیش خان نامی ایک اور شخص بھی اسی دور سیاہ کی چند عبرتناک نشانیوں میں سے ایک ہے۔ یہ آدمی بنک آف پنجاب کو لگ بھگ دس ارب کا ٹیکہ لگا کر اس وقت غالباً کسی امریکی ساحل کی ٹھنڈی ریت پر لیٹا فرنچ مساج کروا رہا ہو گا۔ ہمیں اعتراض اس کے مساج پر نہیں بلکہ صرف اس رقم پر ہے جو اس مساج پر روزانہ ڈالروں کی شکل میں اٹھتی ہے اور جو پاکستان کی ملکیت ہے مگر یہ اچکا اسے باپ کا مال سمجھ کر پانی کی طرح بہا رہا ہے اب تو سنتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے بھی اس شخص کو طلب کر لیا ہے مگر نجانے کیوں ہمارے حکمران اپنے ہاتھوں پیروں اور ’’گٹوں پر سواہ‘‘ مل کر خاموش بیٹھے ہیں۔ حالانکہ لوک داستان یہی ہے کہ ہمیش خان کو ملک سے فرار کرانے میں چند ایک اہم شخصیات نے طویل و عریض ’’نذرانہ‘‘ وصول کیا تھا۔
حیرت ہے چودھری شجاعت آئے دن مارشل لا کی ’’فضیلت‘‘ تو بیان کرتے رہتے ہیں مگر انہوں نے ہمیش خان جیسے چور کی مذمت کبھی نہیں کی جو کروڑوں نہیں اربوں روپے ڈکار گیا ہے، اس خامشی کی وجوہات میں سے ایک ’’اٹک سکول آف تھاٹ‘‘ بھی ہے جس کی جملہ تفصیلات ہمارے قارئین خوب جانتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ ہمیش خان ہمیشہ چودھریوں کا بغل بچہ ہی سمجھا گیا ہے اور وہ یہ چن بھی چودھری دور میں ہی چڑھا کر ملک سے فرار ہوا ہے۔ ہم چودھری برادران سے صرف اتنی گزارش کرتے ہیں کہ گاہے گاہے اس آدمی کا تذکرہ بھی اپنی گفت و شنید میں کرتے رہا کریں۔
اسی طرح ایک بار پھر محترم اشفاق پرویز کیانی سے دست بستہ درخواست ہے کہ مشرف پر مقدمہ بھلے سے چلائیں یا نہ چلائیں مگر اسے کہہ سن کر ہماری اربوں کی مسروقہ رقم کا حساب کتاب تو دلوا دیں، ہم تاقیامت ممنون رہیں گے، ہمیں شک ہے کہ آئندہ سیٹ اپ نہ صرف احتساب کے نام پر لایا جا رہا ہے، بلکہ اس مرتبہ احتساب ہوتا نظر بھی آتا ہے۔ احباب اپنی اپنی فکر کر لیں ! !
پرویز مشرف کا دور اپنی دیگر تباہ کاریوں کے ساتھ ساتھ 23 ارب ڈالر کی اس ’’تُھک‘‘ کی وجہ سے بھی یاد رکھا جائے گا جو نج کاری کے نام پر سرکار کو لگی۔ ایک عدد بنک اور ایک دو کمپنیوں کی فروخت میں شوکت عزیز نے مشرف کے ساتھ مل کر وہ ’’ہنیر‘‘ ڈالا ہے کہ جس کی مثال پچھلے کسی دور میں نہیں ملتی۔ زیادہ تفصیل میں جانے کا نہ تو موقعہ ہے اور نہ ہی ہمارے پاس وقت، صرف اتنا ہی کافی ہے کہ وہ بنک ساڑھے بائیس ارب روپے یعنی کوڑیوں کے بھائو بیچ دیا گیا جس کے اپنے اثاثوں کی مالیت کم از کم ساڑھے چار سو ارب تھی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ان کے دیگر رفقائے کار سے گزارش ہے کہ چلیں اگر آپ لوگ اتنے ہی مجبور ہیں تو مشرف پر آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ مت چلائیں مگر خدارا ان دونوں چور کے پتروں سے کم از کم اس ’’ڈانگ‘‘ کا حساب تو ہمیں لینے دیں جو یہ ’’انھی کے گھر‘‘ میں پھیرتے رہے ہیں، اسی دور کے کم از کم پچاس بیورو کریٹ دس جرنیل اور دو سو ایجنٹ ایسے ہیں کہ جنہیں صرف ایک مرتبہ قریبی تھانے بلا کر ان کے سامنے کسی عادی چور کو ایک ہلکا سا پانجہ بھی لگوا دیا جائے تو بخدا ان احباب کے آف شور بنک اکاؤنٹس سے پاکستان کا آدھے سے زیادہ بیرونی قرضہ اتارا جا سکتا ہے۔
خدا کے لئے ہمیں مشرف کے سابق ساتھیوں اور دور حاضر کے سفید پوشوں سے منگلا ڈیم توسیعی منصوبے کے تحت کی گئی اربوں ڈالر کی لوٹ مار کا حساب بھی لینے دیں۔ ریلوے انجن اور بوگیوں کے نام پر لی گئی اربوں کی کک بیک بارے بھی ہمیں پوچھ گچھ کر لینے دیں کیونکہ مذکورہ معاملے میں مبینہ طور پر ملوث مشرف کے وہ دونوں وزیر ابھی زندہ ہیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ دندناتے پھرتے ہیں، پانچ چار سال کا توقف مزید ہوا تو دونوں لد جائیں گے اور پھر ان کا نام صرف روز محشر ہی پکارا جائے گا مگر اس غریب عوام کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ ان کے بے شمار خفیہ اور علانیہ بچے غریب عوام کے پیسوں سے بنی ناجائز جائیداد کے لاتعداد بٹوارے کر لیں گے اور بے چارے عوام محض منہ ہی دیکھتے جائیں گے۔
ہمیش خان نامی ایک اور شخص بھی اسی دور سیاہ کی چند عبرتناک نشانیوں میں سے ایک ہے۔ یہ آدمی بنک آف پنجاب کو لگ بھگ دس ارب کا ٹیکہ لگا کر اس وقت غالباً کسی امریکی ساحل کی ٹھنڈی ریت پر لیٹا فرنچ مساج کروا رہا ہو گا۔ ہمیں اعتراض اس کے مساج پر نہیں بلکہ صرف اس رقم پر ہے جو اس مساج پر روزانہ ڈالروں کی شکل میں اٹھتی ہے اور جو پاکستان کی ملکیت ہے مگر یہ اچکا اسے باپ کا مال سمجھ کر پانی کی طرح بہا رہا ہے اب تو سنتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے بھی اس شخص کو طلب کر لیا ہے مگر نجانے کیوں ہمارے حکمران اپنے ہاتھوں پیروں اور ’’گٹوں پر سواہ‘‘ مل کر خاموش بیٹھے ہیں۔ حالانکہ لوک داستان یہی ہے کہ ہمیش خان کو ملک سے فرار کرانے میں چند ایک اہم شخصیات نے طویل و عریض ’’نذرانہ‘‘ وصول کیا تھا۔
حیرت ہے چودھری شجاعت آئے دن مارشل لا کی ’’فضیلت‘‘ تو بیان کرتے رہتے ہیں مگر انہوں نے ہمیش خان جیسے چور کی مذمت کبھی نہیں کی جو کروڑوں نہیں اربوں روپے ڈکار گیا ہے، اس خامشی کی وجوہات میں سے ایک ’’اٹک سکول آف تھاٹ‘‘ بھی ہے جس کی جملہ تفصیلات ہمارے قارئین خوب جانتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ ہمیش خان ہمیشہ چودھریوں کا بغل بچہ ہی سمجھا گیا ہے اور وہ یہ چن بھی چودھری دور میں ہی چڑھا کر ملک سے فرار ہوا ہے۔ ہم چودھری برادران سے صرف اتنی گزارش کرتے ہیں کہ گاہے گاہے اس آدمی کا تذکرہ بھی اپنی گفت و شنید میں کرتے رہا کریں۔
اسی طرح ایک بار پھر محترم اشفاق پرویز کیانی سے دست بستہ درخواست ہے کہ مشرف پر مقدمہ بھلے سے چلائیں یا نہ چلائیں مگر اسے کہہ سن کر ہماری اربوں کی مسروقہ رقم کا حساب کتاب تو دلوا دیں، ہم تاقیامت ممنون رہیں گے، ہمیں شک ہے کہ آئندہ سیٹ اپ نہ صرف احتساب کے نام پر لایا جا رہا ہے، بلکہ اس مرتبہ احتساب ہوتا نظر بھی آتا ہے۔ احباب اپنی اپنی فکر کر لیں ! !