بیرسٹر ظہور بٹ
جب سے عدلیہ نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے جرم میں سزا دے کر گھر بھےجا ہے پیپلز پارٹی کے جیالوں نے ایک نئی بحث چھےڑ دی ہے کہ جس وزیر اعظم کو پاکستان کی پارلیمنٹ کے 342 ارکان نے منتخب کیا ہو اسے سپریم کورٹ کے چند جج کیسے نا اہل قرار دے سکتے ہیں دوسرے انہوں نے یہ جانتے ہوئے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ غلط تھا پھر بھی اسے قبول کر لیا تاکہ کوئی ٹکراو¿ پیدا نہ ہو تیسرے پارلیمنٹ سب سے سپریم ادارہ ہے اور باقی تمام ادارے اسکے ماتحت ہیں اور کوئی اس سے بالا نہیں ان جیالوں کی اپنی تو کوئی سوچ عقل یا بُدھی نہیں ہوتی مگر His Master Voice کی طرح جس قسم کی آواز ایوان اعلیٰ سے نکلتی ہے یہ اسی کا ورد شروع کر دےتے ہیں بعض جیالے تو پیپلزپارٹی کے باس کو خوش کرنے یا خوش رکھنے کےلئے اُس سے بھی آگے بڑھ کر بڑھکیں لگانی شروع کر دےتے ہیں تاکہ ن کا نام بھی باس کی گڈ بکس (Good Books) میں آجائے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ یہ پاکستان کی حکومت نہیں کسی آمر کا ڈےرہ ہے اور جب تک باس کا ہاتھ ان کے سر پر ہے وہ جو چاہےں کہتے رہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ نہ تو پارلیمنٹ سپریم ہوتی ہے اور نہ ہی سپریم کورٹ بلکہ ملک کا آئین سب سے سپریم ہوتا ہے پارلیمنٹ اسی وقت تک سپریم ہوتی ہے جب تک ملک میں آئین کا نفاذ نہیں ہو جاتا مگر جب آئین نافذ ہو جائے تو یہ دونوں ادارے پاکستان کے آئین کے تابع آ جاتے ہیں عدلیہ کے جج صاحبان بھی اسی آئین کی پاسداری اور اسکے مطابق فیصلے کرنے کی قسم کھاتے ہیں اور وزیر اعظم اور دیگر تمام وزراءبھی اسی آئین کی پاسداری اور اس پر عمل کرنے کی قسم اٹھاتے ہیں وزیر اعظم قومی اسمبلی کے لیڈر اور انتظامیہ کے سربراہ ہوتے ہیں اور انتظامیہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کروانے کی پابند ہوتی ہے قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے لےکن اسکی تشریح کرنا عدلیہ کا کام ہے اور یہ فیصلہ کرنا بھی عدلیہ کے اختیار میں ہے کہ آیا یہ قانون آئین کے متصادم ہے یا نہیں اور اگر عدلیہ فیصلہ کرے کہ یہ قانون آئین سے متصادم ہے تو وہ اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
پاکستان کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی جائے تو نظر آتا ہے کہ ہماری عدلیہ اکثر ہر حکومت کی جےب میں رہی ہے حکومتی سربراہان جب کبھی غیر ملکی دورے پر جاتے تو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے کچھ ججوں انکی بےگمات اور بچوں کو بھی سیر سپاٹے کروانے کےلئے ساتھ لے جاتے اور شاپنگ بھی کرواتے یہ جج بھی اپنے فیصلوں میں ان حکومتوں کو مایوس نہیںکرتے تھے ایک مدت کے بعد پاکستان میں ایسی عدلیہ وجود میں آئی ہے جس نے تمام پرانی روائیتں چھوڑ کر پاکستان کے قوانین اور آئین کے مطابق فیصلے کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے بس یہی ایک بات ہے جو پیپلز پارٹی کی سمجھ میں نہیں آ رہی یہ اپنی من مانیاں کرنا چاہتے ہیں اور جب عدلیہ انہیں غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کرنے سے روکتی ہے تو وہ شور مچاتے ہوئے عدلیہ کو اپنا دشمن کہنے لگتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت تو پچھلے چار سالوں سے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرتی چلی آ رہی ہے یہاں تک کہ اس نے کرپشن کےخلاف تفتیش کرنےوالے افسران کو تبدیل کرکے اپنی پسند کے افسران کو آگے لانے کی کوشش کی کیونکہ ملزمان سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور پنجاب کے سابق وزیر اعلےٰ پروےز الہی کے بےٹے تھے اسکے علاوہ کچھ سرکاری افسران اور وزراءکےخلاف بے شمار ایسے کرپشن کے مقدمات زیر سماعت ہیں جن میں حکومت مسلسل رکاوٹیں ڈالتی رہی ہے جبکہ عدلیہ انتہائی صبرو تحمل اور بردباری سے کام لےتی رہی ہے۔
مےرے خیال میں توہین عدالت کے بارے میں پاس کیا جانےوالا حالیہ ایکٹ بھی عدلیہ کے اختیارات کم کرنے اور عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کو محدود کرنے کی کوشش ہے حالانکہ ہماری حکومت کو معلوم ہے کہ پاکستان کے آئین کےمطابق پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتی جس سے عدلیہ کے اختیارات کم کرنا مقصود ہوں البتہ پارلیمنٹ ایسا قانون ضرور بنا سکتی ہے جس سے وہ عوام کو انصاف مہیا کرنے کےلئے عدلیہ کے اختیارات میں اضافہ کرنا چاہتی ہو 12 جولائی 2012 کو جب انتہائی عجلت میں توہین عدالت ایکٹ پاس کیا گیا تو اس سے اگلے ہی دن کئی تنظیموں نے اسے عدالت عالیہ میں چیلنج کر دیا تھا (ر) جسٹس فخرالدین جی ابراہیم نے تو اسی وقت کہہ دیا تھا کہ ان جیسے چار فخرایدین جی ابراہیم آ جائیں تو بھی وہ اس بے تکے ایکٹ کو نہیں سمجھ سکتے انکے علاوہ اور بھی کئی سینئر وکلاءکے اسی قسم کے تبصرے سامنے آئے تھے سمجھ میں نہیں آتا کہ جب قومی اسمبلی میں یہ بل پےش کیا گیا تھا تو حکومت کے سربراہوں نے اپنے چہیتے سینئر وکلاءسے مشورے کیوں نہیں کئے؟ شائد انہیں بھی معلوم تھا کہ جب اس توہین عدالت کے ایکٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائےگا تو یہ سپریم کورٹ کی سیڑیوں پر ہی دم توڑ جائےگا تو پھر قومی اسمبلی میں موجود اپنے ارکان اسمبلی سے ہاتھ کھڑے کرواکر انکے ساتھ یہ بے رحمانہ مذاق کیوں کیا گیا؟ کیا انہیں یہ ثابت کرنا تھا کہ انکے اراکین اسمبلی ایسی بے زبان بھےڑ بکریاں ہیں جنہیں ان کا باس جب چاہے جس طرح چاہے اور جس سمت چاہے ہانک سکتا ہے اور یہ دُم ہلاتے اور مَیں مَیں کرتے اس کے پیچھے پیچھے ایک رےوڑ کی طرح چلتے رہیں گے؟ بہرحال ان سطور کے لکھے جانے تک اس قانون کو کالعدم کردیا گیا ہے‘ اب ”ویٹ اینڈ سی“ کا مسئلہ ہے۔