مولانا عبدالقادر آزاد
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم اما بعد ۔ فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم اما بعد
اِنَّا اَن±زَل±نٰہُ فِی± لَی±±لَةِ ال±قَد±رِ(1)وَمَا اَد±رٰکَ مَا لَی±±لَةُ ال±قَد±رِ(2)لَی±±لَةُ ال±قَد±رِ خَی±±رµ مِّن± اَل±فِ شَہ±ر(3)تَنَزَّلُ ال±مَلٰئِکَةُ وَالرُّو±حُ فِی±ہَا بِÊِذ±نِ رَبِّہِم مِّن± کُلِّ اَم±رٍ(4)سَلاٰمµ ہِیَ حَتّٰی مَط±لَعِ ال±فَج±ر(5) (سورہ القدر)
رات اور دن اللہ تعالیٰ نے بنائے‘ بعض راتوں کو بعض پر فضیلت بخشی اور بعض دنوں کو بعض دنوں پر فضیلت بخشی‘ جیسے جمعة المبارک کو سید الایام کہا گیا‘ تو اسی طرح لیلة القدر کو ”سید اللَیالی “کا درجہ حاصل ہے کیونکہ قرآن مجید مےں اس رات کو ہزار راتوں سے بہتر کہا گیا ہے ۔
لیلة ‘ اور یوم ‘ زمانے کے دو ٹکڑوںکے نام ہیں ‘ دن رات کو ملایا جائے تو چوبیس گھنٹے ایک دن کہلاتا ہے‘ سات یوم کو ایک ہفتہ‘ چار ہفتوں کو ایک مہینہ ‘ بارہ ماہ کو ایک سال اور سو سالوں کو ایک صدی کہتے ہیں‘ جس کو دھر بھی کہتے ہیں۔ یہ سب زمانے کے ٹکڑوں کے نام ہیں‘ جس طرح زمانے کے ٹکڑے برا بر نہےں ہیں کو ئی بڑا کوئی چھوٹا ہے تو اسی طرح ساعتیں بھی برابر نہےں ہیں‘ کوئی افضل کوئی غیر افضل۔
افضل صدی :
تمام صدیوں مےںوہ صدی افضل ہے جس مےں سر کار دوعالم تشریف لائے‘ کیونکہ آپ مقصود الکائنات ہیں ‘ جس دن وہ ہستی پیدا ہوئی وہ سب سے افضل ہے ۔
افضل سال :
سب سے افضل وہ سال ہے جس میں سرکار دوعالم نے ہجرت فرمائی‘ وہ سال یاد گار ہے آج تک سن ہجری کے نام سے پکارا جاتا ہے‘ پھر سال کے مہینوں مےں افضل ماہ رمضان المبارک ہے‘ اس ماہ کی راتوں مےں افضل رات لیلة القدر ہے ‘ بعض علماءکرام نے کہا ہے راتوں میں مولد النبی کی رات سب سے افضل ہے ۔
خصوصیات النبی :
ہمارے نبی کو دیگر انبیاءسے خصوصی شان حاصل ہے ‘ اسی طرح آپ کو بعض چیزیں خصوصی طور پر ملی ہیں۔
مسلم شریف کی ایک روایت حضرت جابرؓ سے مروی ہے :
رسول اللہ نے فرمایا کہ مجھے پانچ صفتیں ایسی حاصل ہیں جو مجھ سے قبل کسی نبی کو نہےں دی گئیں ۔
(1) مجھے ایسا رعب اور دبدبہ عطا کیا گیا کہ مہینہ بھر کی مسافت تک کوئی موجود ہو تو وہ شخص بھی مرعوب ہو جائے۔
(2) میرے لئے ساری روئے زمین پاک اور مسجد بنا دی گئی‘ میری اُمت مےں سے جس کسی کو جس جگہ نماز کا وقت آ جائے وہ اسی جگہ نماز پڑھ لے ۔
(3) مجھ سے قبل کسی نبی کیلئے مال غنیمت حلال نہیں کیا گیا ‘ میری اُمت کیلئے حلال کر دیا گیا ۔
(4) مجھے شفاعت کبریٰ دی گئی‘ روز قیامت میں سب امتوں کیلئے عام طور پر اور اپنی اُمت کیلئے خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو کر شفاعت کروں گا ۔
(5) ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا گیا اور مجھے کافة للناس کیلئے بھیجا گیا ۔
بعض محدثین نے لکھا ہے کہ چھٹی خصوصیت لیلة القدر کا عطا ہونا ہے جیسا کہ سورة القدر کے شانِ نزول سے ظاہر ہوتا ہے۔
معارف القرآن (جلد 8 صفحہ 791) پر لکھا ہے کہ حضور نے فرمایا بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے ایک ہزار مہینے تک اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کیا ‘ صحابہؓ کو رشک آیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے مےں یہ رات عطا فرمائی۔ بعض روایات مےں ہے کہ حضور نے پہلی اُمتوں کی عمروں کو دیکھا کہ بہت زیادہ ہوئی ہیں اور آپ کی اُمت کی عمریں کم ہیں اگر وہ نیک اعمال مےں انکی برابری کرنا چاہیں تو ناممکن ہے تو اس پر نبی کریم کو رنج ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں یہ رات عطا فرمائی ۔
لیلة القدرکے معنی :
لیلة کے معنی رات کے ہیں اور قدر کے معنی ہیں عظمت و شرف ‘ تو اس رات کو شرف حاصل ہوا ہے کیونکہ اس میں نزول قرآن مجید ہوا ہے‘ قرآن مجید سب کتابوں مےں عظمت و شرف والی کتاب ہے اور جس نبی کریم پر یہ کتاب نازل ہوئی وہ تمام انبیاءپر عظمت و شرف رکھتے ہےں‘ اس کتاب کو لانے والے جبرائیل امینؑ بھی سب فرشتوں پر عظمت و شرف رکھتے ہےں تو یہ رات لیلة القدر بن گئی ۔
حضرت ابو بکر وراق ؒ کا فرمان ہے اس رات کو لیلة القدر اس وجہ سے کہتے ہیں جس آدمی کی اس سے قبل اپنی بے عملی کی وجہ سے قدر و منزلت نہ تھی تو اس کو توبہ استغفار اور عبادت کے ذریعہ صاحب قدر و شرف بنا دیا جاتا ہے۔
قدر کا دوسرا معنی :
قدر کے معنی تقدیر و حکم کے بھی آتے ہےں اس اعتبار سے لیلة القدر کہنے کی وجہ یہ ہوگی کہ اس رات تمام مخلوقات کیلئے جو تقدیر ازلی مےں لکھا ہے اس کا جو حصہ اس سال رمضان سے اگلے رمضان تک پیش آنے والا ہے وہ ان فرشتوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے جو کائنات کی تدبیر اور تنفیذ امور کیلئے مامور ہیں اس مےں ہر انسان کی عمر اور موت اور رزق وغیرہ فرشتوں کو لکھوا دیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس سال مےں جس شخص کو حج نصیب ہو گا وہ بھی لکھ دیا جاتا ہے اور جن فرشتوں کو یہ امور سپرد کر دیئے جاتے ہےں بقول حضرت ابن عباسؓ چار ہیں (1) حضرت جبرائیلؑ (2 ) حضرت میکائیلؑ (3) حضرت عزرائیلؑ (4) حضرت اسرافیلؑ (معارف القرآن بحولہ قرطبی جلد 8 صفحہ 792)
ایک سوال اور اس کا جواب :
بعض روایات سے ثابت ہو تا کہ یہ سب فیصلے لیلة النصف من شعبان یعنی شبِ برا¿ت مےں کئے جاتے ہیں۔ الجواب
تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں روایتوں مےں تطبیق دی جاتی ہے کہ ابتدائی فیصلے اجمالی طور پر شب برات مےں ہو جاتے ہیں پھر اس کی تفصیلات لیلة القدر میں لکھی جاتی ہےں اور مقررہ فرشتوں کے سپر د کئے جاتے ہیں (معارف القرآن جلد 8 صفحہ 792)
قدر کا تیسرا معنی
قدر کا تیسرا معنی ٰ تنگ ہوجانا بمقابلہ فراخی ہونا ہے جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: اَللّٰہُ یَب±سُطُ الرِّز±قَ لِمَن یَّشَائُ مِن± عِبَادِہ وَیَق±دِرُ لَہ¾۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کا چاہے رزق فراخ کر دیتا ہے اور جس کا چاہے رزق تنگ کر دیتا ہے۔
تو اس معنی کی بنا پر لیلة القدر مےں آسمان سے اتنے فرشتے اترتے ہیں کہ زمین پر جگہ تنگ ہو جاتی ہے کہ ایک پاو¿ں رکھنے کی جگہ بھی نہیں ملتی تَنَزَّلُ ال±مَلٰئِکَةُ وَ الرُّو±حُ فرشتے بھی نازل ہوتے ہےں اورر وح الامین بھی تشریف لاتے ہیں ۔نیز احادیث مےں بھی اس رات کی فضیلت کو واضح کیا گیا ہے ۔
حدیث1
حضرت انس ؓ سے روایت ہے رسول اللہ نے فرمایا جب شب ِقدر ہوتی ہے تو جبرائیلؑ ملائکہ کی جماعت مےں اترتے ہیں اور ہر اس شخص کیلئے دعا رحمت اور سلامتی کر تے ہےں جو عبادت مےںمصروف ہوتا ہے۔ (بیہقی شریف صفحہ 21 )
حدیث 2
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے آقا دوعالم نے فرمایا جس شخص نے شب قدر مےں عبادت کی ایمان اور طلب اجر کے ساتھ تو اس کے گذشتہ سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں (مسلم شریف 259)
حدیث 3
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے رسول اللہ ارشاد فرماتے ہےں کہ تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو اس سے محروم رہ گیا گویا ساری بھلائیوں سے محروم رہ گیا ہے (ترغیب جلد 2 صفحہ 94)
حدیث 4
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ نے لیلة القدر کو رمضان المبارک آخری عشرہ کی طاق راتوں مےں تلاش کرو (ترمذی 98)
لیلة القدر ستائیسویں کو شب ترجیح ہے
حضرت اُبی بن کعبؓ نے قسم کھا کر فرمایا کہ شب قدر رمضان کی ستائیسویں رات ہوتی ہے (مسلم جلد 2591 ابو داو¿د صفحہ197) اسی طرح حضرت عمرؓ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے پوچھا کہ شب قدر کونسی رات ہے تو انہوں نے عرض کی اے عمرؓ آپ نے دیکھا نہےں کہ اللہ تعالیٰ کو سات کے عدد سے بہت محبت ہے آپ نے دیکھا نہےں کہ آسمان سات ہےں زمینیں سات ہےں اور انسان کی پیدائش کے مرحلے بھی سات ہیں اور زمین سے اگنے والی چیزیں بھی سات ہیں اسی طرح آدمی سجدہ کرتا ہے تو سات اعضاءپر کر تا ہے اسی طرح سعی بین الصفاءوالمروہ کے چکر سات ہیں ‘ طواف کعبہ کے چکر بھی سات ہیں شیطان کو بھی سات سات کنکر مارے جاتے ہےں‘ سورہ فاتحہ کی آیات بھی سات ہیں جن عورتوں سے نکاح حرام ہے وہ سات ہیں تو ان سب باتوں سے معلوم ہوا کہ لیلة القدر بھی ستائیسویں کو ہے ۔
شب قدر کی علامات
حضرت عبادہ بن سامتؓ سے روایت ہے (1) یہ رات چمکدار اور صاف ہوتی ہے نہ زیادہ گرم اور نہ زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہے بلکہ بھینی بھینی اور معتدل ہوتی ہے (2) اس رات کو شیاطین کو ستارے نہیں مارے جاتے۔ (3) آسمانوں کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنے سے آنکھوں مےں نور اور دل میں سرور کی کیفیت پیدا ہوتی ہے (4) شب قدر کی بعد والی صبح کو سورج مےں تیزی نہےں ہوتی (5) اس رات میں عبادت کی بڑی لذت محسوس ہوتی ہے اور عبادت میں خشوع و خضوع پیدا ہو تا ہے (6) بعض لوگوں نے دیکھا کہ ہر چیز سجدہ کرتی ہے یہاں تک کہ درخت بھی سجدہ کر تے ہیں اوراس رات پانی میٹھا ہو جاتا ہے ۔
لیلة القدر میں ہم نے کیا دعا مانگنی ہے
لیلة القدر میں خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے تین سو دروازے کھلے ہوتے ہےں جو بھی دعا مانگو قبول ہوتی ہے وہ کریم ذات کسی کو بھی خالی نہےں لوٹاتی اس رات خاص کر یہ دعا ضرور مانگنی چاہیے اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوّµ کَرِی±مµ تُحِبُّ ال±عَف±وَ فَاع±فُ عَنِّی یَا کَرِی±مُ۔
توبہ و استغفار کرنا چاہیے اور عجزو انکساری سے رو رو کر دعا کرنی ہے
توبہ کی شرائط
(1) اَن± یَّق±لَعَ عَنِ ال±مَع±صِیَةِ یعنی جس گناہ سے توبہ کرنی ہے اس کو ہمیشہ ہمےشہ ترک کرنے کا ارادہ کرنا ہے (2) اَن± یَّن±دِمَ عَلَی±ھَا اس گناہ پر ندامت بھی کرنی ہے (3) اَن± یَّع±زَمَ عَز±مًا جَازِمًا اَن± لَّا یَر± جِع± اِلَی±ھَا یہ پختہ عزم کرنا ہے کہ آئندہ کبھی بھی یہ گناہ نہ کروں گا ‘ اس طرح توبہ کرنے سے آدمی کے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں اگر توبہ ٹوٹ بھی جائے تو دوبارہ کر لینی چاہیے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہےں ہونا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو لیلة القدر کی برکات نصیب فرمائے۔ (آمین)