حالیہ صدارتی الیکشن کی آڑ میں پیپلز پارٹی نے اپنی ہار سمیت آئندہ دنوں میں پیش آنے والے مقدمات اور اپنی کرپشن کے حساب کتاب سے بچنے کے لئے عدالت، الیکشن کمیشن اور خصوصاً چیف جسٹس کو خوب آڑے ہاتھوں لیا کیوں ان کے لئے اپنی ہار کو تسلیم کرنا کسی طور قابل قبول نہیں تھا۔ وہ اپنے اعمال اور بری کارکردگی کا اعتراف کرنے کی بجائے اس کا ذمہ دار اس الیکشن کمیشن کو ٹھہراتے رہے جسے اس وقت کی حکومت یعنی انھوں نے خود تعینات کیا تھا اور اب چند دن صدارتی الیکشن میں فرق آنے سے انہوں نے اس طرح آسمان سر پر اٹھایا جیسے بہت بڑی آفت ٹوٹ پڑی ہو اور ان کا امیدوار محض ان دنوں کے ہیر پھیر کے باعث ہارا ہو۔ داد دینی پڑے گی صدر زرداری کی ذہانت کی کہ جاتے جاتے بھی نہ صرف رضا ربانی سے ہاتھ کر گئے بلکہ عمران خان کو بھی ہلا کر رکھ گئے کہ خان صاحب دیکھا دیکھی جوشِ جذبات میں بہت سے دعوے کر گئے۔ رضا ربانی جیسے جمہوری فکر کے حامل سیاست دان کو نامزد کر کے بائیکاٹ کرانے کا مقصد یہی تھا کہ پارٹی میں کوئی ان سے آگے نہ بڑھ جائے۔ ایسے میں اعتزاز احسن اپنے ذاتی گلے شکوے لے کر چیف جسٹس کے خلاف ہو گئے کیوں ان کا خیال تھا کہ عدلیہ بحالی میں ان کے کردار کے باعث چیف جسٹس کو تمام فیصلے ان کی مشاورت سے کرنا چاہیے تھے۔ بہرحال یہ بات تو سمجھ آتی ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے بے شمار کیسز سے بچنے کے لئے چیف جسٹس کو متنازعہ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر عمران کا ایسا کیا مسئلہ ہے جو وہ اس قدر واویلا کرتے نظر آتے ہیں تو آخر وہ بات بھی عمران خان کے منہ سے نکل گئی یہ تمام غصہ انہیں عائلہ ملک کی جعلی ڈگریوں کے عوض نااہل ہونے سے ہے۔ وہ عائلہ ملک کے حوالے سے اتنے جذباتی ہوئے کہ چیف جسٹس اور الیکشن کمیشن کو کھری کھری سنا دیں۔ ویسے اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔ عائلہ ملک کی وجہ سے تو وہ اپنے عزیز ترین اور جانثار کزنز کو الوداع کہہ چکے ہیں۔ ویسے یہ غصہ انہیں عائلہ ملک پر کرنا تھا کہ اسے نے غلط بیانی سے کیوں کام لیا جب کہ اس کی نہ صرف انٹرمیڈیٹ کی سند جعلی ہے بلکہ بی۔ اے کی ڈگری بھی جعلی ہے جو کہ ماسکو کی یونیورسٹی سے حاصل کی گئی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ موصوفہ کبھی زندگی میں نہ ماسکو گئی اور نہ انہیں وہاں کی زبان آتی ہے۔ یہ فرشتوں کا کام لگتا ہے۔ اپنے دکھ کا کتھارسز الیکشن کمیشن کے ذریعے کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ آئندہ ضمنی انتخابات میں اپنی ہار کو پھر متنازعہ بنایا جا سکے۔ نہ جانے خان صاحب کب سیاسی شعور کا مظاہرہ کریں گے کیوں کہ ابھی تک کے حالات و واقعات انہیں ایک جذباتی کھلاڑی ہی ثابت کر سکے ہیں جو سیاسی معاملات میں مکمل طور پر اناڑی ہے۔ اپنی ہی بات اور فیصلے پر جسے اعتماد نہیں۔
سپریم کورٹ میں پیشی سے قبل بھی اُن کے صلاح کاروں نے انھیں ڈٹ جانے اور معافی نہ مانگنے کا مشورہ دے کر انہیں متنازع بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے اس کا ایک فائدہ بہر حال ضرور ہوا کہ وہ دو تین دن میڈیا پر خوب چھائے رہے۔ مگر چیف جسٹس کے ریماکس کے مطابق ایک با شعور، محب وطن اور پڑھے لکھے انسان کو ایسے بیانات نہیں دینے چاہئیں جس سے اداروں کی کار کردگی پر حرف آئے کیونکہ عدلیہ پہلی بار آزادی کے ماحول میں فیصلے کرنے کے قابل ہوئی ہے ،عدلیہ کے اپنے اختیارات سے کسی حد تک تجاوز کا معاملہ یوں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ دیگر اداروے اپنی ذمہ داریوں کو صحیح معنوں میں پورا نہیں کر پا رہے ایسی صورت میں عدلیہ کے پاس از خود کاروائی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ ایسے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور ان میں الجھے رہنے کے باعث اصل مسائل نظر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ عمران خان صاحب کو اب اس حوالے سے ایک جامع حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے کہ کون کون سے ایشوز پر انھوں نے آواز بلند کرنی ہے اور کن سے اجتناب کرنا ہے۔ حامد خان صاحب کا سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے سامنے یہ بیان بھی مضحکہ خیز ہے کہ اگر وہ پاکستان میں ہوتے تو معاملات پیش نہ آتے۔ گویا عمران خان ان کی ڈکٹیشن پر عمل کرتے ہیں اور اصل لیڈر بھی وہی ہیں جو کہ فیصلہ سازی میں اہمیت رکھتے ہیں۔ ملکی معاملات کو درست ڈگر پر چلانے کے لیے عدلیہ کا کردار بہت اہم ہے اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ اس ادارے کو کسی طور پر متنازع نہ بنایا جائے بلکہ جو بھی قانونی مسائل اور پیچیدگیاں ہیں انہیں قانونی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ ورنہ اس کا نقصان پورے ملک کو برداشت کرنا پڑے گا ۔