پورے ملک میں آزادی مارچ کے چرچے ہیں، ہر کوئی بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگا ہے لیکن تمام قسم کی آوازوں اور بولیوں میں ایک سوال مشترک ہے کہ 14 اگست کو کیا ہونے جا رہا ہے؟ ایک طرف عمران خان کے بقول 10 لاکھ لوگ اسلام آباد میں اکٹھے ہو کر حکومت کو چلتا کرنے کی سبیل پیدا کرنے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف کینیڈین شہزادے طاہر القادری کے تیور کچھ زیادہ سے زیادہ ہو جانے کی چغلی کھا رہے ہیں۔ عام الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کینڈے میں رہتے ہوئے حکومت کو گھر بھیجنا چاہتے ہیں جبکہ شیخ الاسلام کینڈے سے باہر ہو کر کھیلتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ جب عمران خان کا سونامی اور علامہ کا طوفان بدتمیزی اسلام آباد کی طرف بڑھے گا مارچ کرے گا اور دھرنا دے گا تو کیا ہو گا اس کا تصور کر کے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اگر اس تصور سے عام آدمی تڑپ کر رہ جاتا ہے تو ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگوں پر کیا بیتی ہو گی۔ کیا پاکستان کا پُرامن اور محب وطن طبقہ اس بھیانک تصور کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہا ہے قطعاً نہیں۔ کیا پاکستان کی مسلح افواج کی قیادت اس روح فرسا تصور کو پایۂ تکمیل تک پہنچنے کی اجازت دے گی ہرگز نہیں کیونکہ بچہ بچہ اس حقیقت سے آگاہ و واقف ہے کہ انقلاب جو علامہ چاہتے ہیں خانہ جنگی اور خون کی ہولی کا دوسرا نام ہے اور کسی بھی سچے پاکستانی کو خونی انقلاب کی اجازت نہیں دینی چاہئے اور انشأاللہ آنے والا وقت پاکستانیوں کی حب الوطنی ثابت کریگا اور پاک فوج بھی ہر وہ حربہ استعمال کریگی جس سے عالمی سازش کو ناکام بنایا جا سکتا ہو گا۔ حکومت نے اسلام آباد کو تین ماہ کیلئے فوج کے حوالے کر دیا ہے۔ حکومت نے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو بُلایا ہے اچھا کیا اس کے بغیر کوئی چارا جو نہ تھا۔ پاکستان خاص کر پنجاب کے پولیس کھانے پینے اور انسانی خون بہانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی مگر لاکھوں کے جم غفیر کو سنبھالنا پولیس کے دائرہ اختیار سے باہر ہوتا ہے اور وہ کنی کترانے لگتی ہے اس لئے تو سُننے میں آ رہا ہے کہ پنجاب و اسلام آباد پولیس کے بیشتر افسروں نے چھٹیاں اپلائی کر دی ہیں تاکہ وہ ممکنہ خون خرابے کا حصہ نہ بنیں۔ لاہور ماڈل ٹائون سانحہ میں پولیس سینکڑوں لوگوں کو نہ سنبھال سکی تھی اور سیدھی گولیاں چلانے پر مجبور ہو گئی تھی۔ لاکھوں کے مجمع کو بھلا کیونکر کنٹرول کر سکتی ہے۔ حکومت کے فوج کو بُلانے والے اقدام کو غیر قانونی کہنے والے احمقوں کے جنت میں بستے ہیں۔ حکومت نے دو تین باتوں کے پیش نظر اسلام آباد کو فوج کے حوالے کیا ہے۔ (اول) فوج اپنی دہشت ہی سے ہجوم بیکراں کو کنٹرول کر لے گی (دوئم) فوج پولیس کی طرح اپنے ہی لوگوں پر گولیاں نہیں برسائے گی (سوئم) عمران اور علامہ کے لوگ فوج سے ٹکرائیں گے بھی نہیں اور وقت ٹل جائیگا لیکن کہتے ہیں نا کہ اگر ہجوم پُرامن ہو تو خفیہ ہاتھ ایسا ماحول پیدا کر رہا ہے کہ تصادم کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔
میری اطلاع کے مطابق فوج کو یہ ٹاسک دیا جائے گا یا شاید دے بھی دیا گیا ہے کہ عوام کو اسلام کی حدود میں داخل ہی نہ ہونے دیا جائے لیکن اس سب کے باوجود مجھے افراتفری نظر آ رہی ہے۔ متعلقہ لوگوں کے جتھے پاک فوج زندہ باد کے نعرے مارتے ہوئے اسلام آباد کی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں ان حالات میں فوج بزور طاقت لوگوں کو روک پائے گی؟ شاید نہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ حکومت عمران خان گروپ سے خفیہ مذاکرات کر رہی ہے اور اسے بعض یقین دہانیاں بھی کرائی جا رہی ہیں تاکہ وہ آزادی مارچ ملتوی کر دے مگر قوی یقین ہے کہ شیخ رشید اور چودھری برادران ایسے لوگ عمران خان کو ٹھنڈا نہیں ہونے دے رہے ہیں۔ انقلاب اور سونامی کی کامیابی ناکامی کا دار و مدار پی پی پی اور ایم کیو ایم پر ہے۔ کیونکہ ان دو بڑی اور منظم طاقتوں کی شمولیت یا عدم شمولیت کے بغیر کوئی کٹی کٹا نہیں نکل سکتا۔ شیخ رشید تو پُرامید ہے کہ پی پی پی اور ایم کیو ایم بھی ہمارے مارچ کا حصہ ہوں گی مگر اس کا فیصلہ آنے والا وقت کر یگا البتہ ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان میں انقلاب اور تبدیلی تو آئے یا آئے البتہ انسانی خون بہتا ہوا نظر آ رہا ہے اور اگر خدانخواستہ ایسا ہو گیا تو پھر نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ اس اندیشے کے پیش نظر الطاف حسین نے نواز شریف سے قربانی دینے کی اپیل کی ہے کہ پاکستان کو بچا لیں۔
ماہ اگست ۔ اللہ خیر کرے
Aug 05, 2014