اگست 47ء میں جب پاکستان بنا تو میں پرائمری سکول میں پڑھتا تھا ہمارا گھرانہ شروع سے ہی تحریک پاکستان سے وابستہ تھا میرے دادا مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی تحریک پاکستان کے گولڈ میڈلسٹ بھی ہیں بچپن ہی میں اپنے بڑوں سے سنا کرتا تھا کہ پاکستان بننا اس لئے ضروری ہے کہ ہندوستان کے مسلمان ہندوؤں کے ساتھ رہتے ہوئے نہ اپنے دین پر صحیح معنوں میں عمل کر سکتے ہیں اور نہ اپنی سماجی اور اخلاقی روایات کے مطابق زندگی گزار سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ انگریزوں اور ہندوؤں نے مل کر تعلیم اور معیشت سمیت ہر میدان میں مسلمانوں کو دبایا ہوا ہے اور انہیں اسکے حقوق سے محروم رکھا ہوا ہے اس لئے ان کی امید یہ تھی کہ پاکستان بننے کے بعد نہ صرف ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کریں گے بلکہ دنیا کے ہر میدان میں اپنے چھینے ہوئے حقوق بھی واپس حاصل کر سکیں گے۔ میں پنجاب کے اسی حصے میں رہتے ہوئے پاکستان میں شامل ہوا‘ مشرقی پنجاب سے آنے والے مہاجروں کی حالت زار کو بھی دیکھا اور جن سکھوں اور ہندوؤں نے مغربی پنجاب سے کوچ کیا ان کو بھی دیکھا کہ وہ مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کے مقابلے میں بہت کم جانی و مالی نقصان سے دوچار ہوئے بانیان پاکستان اور ہمارے بڑوں کی جو خواہشات اور امنگیں تھیں وہ قیام پاکستان سے وابستہ تھیں وہ کماحقہ پوری نہیں ہوئی اس لئے ہمیں جہد مسلسل کی ضرورت ہے لیکن اس سے اہم تر بات یہ کہ ہم نظریہ پاکستان اور قیام پاکستان کے بنیادی محرکات کو نہ صرف یاد رکھیں بلکہ انہیں اگلی نسل تک بھی پہنچائیں میرے خیال میں ادارہ نوائے وقت اور اس کے بانیان جناب حمید نظامیؒ اور مجید نظامیؒ جو فریضہ ادا کرتے رہے ہیں پوری قوم کو اس پر عمل کرنا چاہئے کہ وہ نظریہ پاکستان کو پھیلائیں۔