ضرب عضب کے بعد ضربِ غضب کی تیاریاں

ضروری وضاحت
نوائے وقت کے مورخہ 4 اگست کے اداریہ میں ادارہ منہاج القرآن کی جنرل کونسل کے اجلاس میں ڈاکٹر طاہر القادری کے خطاب کے مندرجات میں یہ فقرہ غلط فہمی کے تحت شائع ہو گیا ہے کہ ادارہ منہاج القرآن کے کارکن یوم شہداءپر پولیس اہلکاروں کے گھروں پر ٹوٹ پڑیں اور انکی خواتین کو حفاظتی تحویل میں لے کر اپنے ساتھ ادارہ منہاج القرآن لے آئیں، ڈاکٹر طاہر القادری نے درحقیقت پولیس اہلکاروں کی خواتین کو نہیں بلکہ پولیس اہلکاروں کو اٹھا کر ادارہ منہاج القرآن میں لانے کا اپنے کارکنوں کو حکم دیا تھا۔ انکی تقریر کے دوران ٹی وی چینلز پر چلنے والے ٹِیکرز میں ڈاکٹر طاہر القادری سے منسوب یہ فقرہ نوائے وقت کے اداریہ میں کوٹ ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی تقریر میں یہ فقرہ ضرور ادا کیا تھا کہ ادارہ منہاج القرآن کے کارکن اپنے کارکن ساتھیوں کی شہادت کا بدلہ لینے کےلئے جتھے بند ہو کر پولیس اہلکاروں کے گھروں پر ٹوٹ پڑیں مگر کریک ڈاﺅن کے دوران گھروں میں موجود خواتین کی عزت کا خیال رکھیں اور انہیں سلیوٹ کریں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں یہ فقرہ بھی شد و مد کے ساتھ ادا کیا کہ قصاص کے اسلامی فلسفہ کے تحت ہمارے 15 شہید کارکنوں کے بدلے 15 پولیس اہلکاروں کو قتل کرنا ہی سانحہ¿ لاہور کا انصاف ہے۔ (ادارہ)
گذشتہ جون سے پاکستان کی اندرونی سلامتی کو چیلنج کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف پاک آرمی نے بالآخر آپریشن شروع کیا اور اس کا نام ”ضرب عضب“ رکھا۔ چنانچہ فاٹا اور وزیرستان میں تطہیر کا عمل جاری ہے۔
بے تدبیر، ہوس پرست اور اقتدار پسند سیاستدانوں کے ہاتھوں زخم زخم وطن عزیز کا چپہ چپہ خون آلود ہے۔ کراچی سے لے کر بلوچستان کی وادیوں میں پھیلی بغاوت تک اور وزیرستان سے لے کر افغانستان اور بھارت کی سرحدی چوکیوں تک پاک فوج کے افسر اور جوان ہی سینہ سپر ہوکر تحفظ وطن کا فریضہ نبھا رہے ہیں۔ ملک میں جاری اجتماعات، بیانات اور واقعات بتاتے ہیں کہ اس سال کا یوم آزادی حکومت کے خلاف امڈتے ہوئے عوامی غیض و غضب کی علامت بن چکا ہے۔
 14اگست کو عمران خان کے آزادی مارچ اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے نقلاب مارچ کا رخ اسلام آباد کے حکومتی ایوانوں کی طرف مڑچکا ہے۔ دونوں رہنما حکومت کے خلاف غیض و غضب کا اظہار کررہے ہیں۔ اس لئے محسوس ہورہا ہے کہ اس سال 14 اگست یوم آزادی کی بجائے یوم غضب کے طور پر منایا جائے گا۔ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے کارکنان کی ساخت اور پرداخت میں اگرچہ نمایاں فرق ہے مگر دونوں کا مشترکہ ایجنڈا ”انقلاب“ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھی موجودہ سسٹم سے ہی خیر کی امید لگائے بیٹھے ہیں، حالانکہ اسی نظام انتخاب کے ہاتھوں انہیں شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے اور اسی دھاندلی کے ازالے کے لئے وہ سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔
رہے ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کے متوالے کارکن توان کا مطمح ¿ نظر گذشتہ تین سالوں سے نظام انتخاب سے لے کر نظام حکومت و ریاست کی سرے سے تبدیلی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دھونس، دھاندلی اور دولت کا یہ نظام ایک خاص طبقے کو تحفظ دیتا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے پاکستان کا عام شریف اور پڑھا لکھا انسان حکومتی ایوانوں کا رخ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ جس طرح عوام کالانعام اور غلام ابن غلام ہے اسی طرح قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں آنے والوں کی اکثریت حاکم ابن حاکم ہیں۔ قیام پاکستان کے فوری بعد چند جاگیردار اور سرمایہ دار شخصیات نے اس نوزائدہ نظریاتی اسلامی مملکت پر قبضہ کیا جو تاحال مختلف روپ بدل بدل کر حکومتی ایوانوں میں قابض ہیں۔ اسی طبقہ کو حکومتی اشرافیہ کہا جاتا ہے جوملکی وسائل پر بری طرح قابض ہے۔ ان کی اپنی دولت اور اولادیں بیرون ملک ہیں۔ وطن عزیز کے ساتھ ان کا تعلق محض سیاست اور اقتدار کی حد تک قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چھ دہائیوں سے عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں بلکہ آبادی میں اضافے کے ساتھ ان میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ موجودہ حکومت جن وعدوں کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی ان میں سے ایک بھی پورا نہیں ہوسکا۔ جو بڑے بڑے پروجیکٹ شروع ہیں وہ کاروباری اور تجارتی بنیادوں پر آگے بڑھ رہے ہیں ان سے عوامی مسائل میں کوئی کمی نہیں آئی اور نہ آسکتی ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک اور معاشرے کہاں سے کہاں پہنچ گئے مگر پاکستان تمام تر وسائل کے باوجود ہر گزرتے دن کے ساتھ پیچھے جارہا ہے۔ اس لئے اس نظام سیاست وحکومت سے جان چھڑا کر متبادل نظام اپنایا جائے جس کے تحت جمہوریت کو پھلنے پھولنے کے حقیقی مواقع میسر آئیں گے اور عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوسکیں گے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کئی بار متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات کروانے اور ملک کو 4 کی بجائے 35 صوبائی یونٹس میں تقسیم کرکے موجودہ محرومیوں کے ازالے کا نسخہ تجویز کیا ہے۔ آج تک موجودہ نظام اگر مسائل میں اضافوں کے علاوہ ملک و قوم کو کچھ نہیں دے سکا تو آئندہ اسی بنجر نظام کو سینے سے لگائے رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ پیشتر تجزیہ نگاروں کے نزدیک ڈاکٹر طاہرالقادری کے مطالبات اور تصورات مبنی برحقیقت ہیں۔ انکی انقلاب مارچ کو مہمیز سانحہ لاہور کے شہداءنے لگادی ہے۔ پنجاب حکومت نے 17 جون کے خودکش حملے کے ذریعے نہ صرف اپنا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے بلکہ مسلم لیگ نون اور وفاق کو بھی ایک بڑے خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ ان 15 شہداءکا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ نظام کی تبدیلی کے اس انقلابی مارچ میں ان کی قربانیاں کارکنان تحریک کے لئے جذباتی خوراک بن رہی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے 3 اگست کے ورکرز کنونشن میں یوم شہداءکا اعلان کرکے اس سوگوار فضا میں مزید اضافہ کیا ہے۔ ان کے انقلابی پروگرام میں دن بہ دن تیزی آتی جارہی ہے اور حکومت ہے کہ مکمل پسپائی اور بے تدبیری کے سبب پریشانیوں کے گرداب میں گھرتی چلی جارہی ہے۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری دونوں انقلابی سوچ کے حامل ہیں اور دونوں سیلف میڈ لیڈر ہیں۔ اپنی ذاتی محنت اور کاوش کے بل بوتے پر اوپر آئے ہیں، دونوں میں قوم کی قیادت کا جذبہ اور صلاحیت موجود ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ عمران خان کی سیاست اور اس کے کارکن سوشل ریفارمز چاہتے ہیں۔ مگر ڈاکٹر طاہرالقادری چونکہ خود عالم اسلام کے ایک نامور دینی سکالر ہیں اس لئے ان کے کارکنان میں دینی جذبات بھی بھرپور موجود ہیں جو انہیں عظیم تر دینی مقصد کے لئے مشکلات برداشت کرنے اور قربانیاں دینے پر آمادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے 17جون کے بعد 23جون کو اسلام آباد میں اسی ثابت قدمی اور جرات کا مظاہرہ کرکے دکھایا ہے۔ لہذا انقلاب مارچ اور اسلام آباد کے دھرنے اور احتجاج کے دوران ان کا مقابلہ حکومتی فورسز کے لئے اتنا آسان نہیں ہوگا۔ اگر فوج نے حکمت و مصلحت کے بغیر پنجاب پولیس کی طرح مداخلت کی تو پھر دونوں طرف خون خرابے کے ساتھ ساتھ ملک میں انارکی پھیلنے کے واضح امکانات ابھر آئیں گے جن کا وطن عزیز کسی صورت متحمل نہیں ہوسکتا اس لئے بہتر ہے کہ ضرب عضب کی طرح ضرب غضب کے نقصانات سے بھی ملک کو محفوظ رکھا جائے اور یہ کام پاکستان آرمی ہی کرسکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن