علاقہ غیر ....نوگو ایریا ....؟

Aug 05, 2014

آغا امیر حسین

شمالی وزیرستان میں آپریشن ”ضرب عضب“ شروع ہونے کے بعد سے اب تک جو صورتحال سامنے آئی ہے وہ کچھ یوںہے شمالی وزیرستان اور فاٹا، دیگر علاقے پاکستانیوں کے لیے نوگو ایریا یعنی شجرے ممنوعہ ہیں۔ ان علاقوں میں آباد پاکستانیوں کے بارے میں باقی پاکستانیوں کو کوئی جان کاری نہیں ہے اور نہ ہی انہیں ان علاقوں میں آزادانہ نقل و حرکت کی سہولت میسر ہے۔ انگریزوں کے زمانے میں آبادی سینکڑوں ہزاروں میں تھی اس وقت علاقہ غیر اہم تھا اس لیے خیبر پی کے اور بلوچستان میں مقامی قبائلیوں کو مختار کل بنایا گیا۔ ان کے سردار جرگے کے ذریعہ اختیار استعمال کرتے ہیں۔ بلوچستان میں بھی نواب، سردار اپنے اپنے علاقوں میں سیاہ و سفید کے مالک ہیں، بادشاہ ہیں، حکومت ان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔ حکومت کی ذمہ داری صرف اس حد تک محدود ہے کہ وہ ترقیاتی منصوبوں اور دیگر فلاحی کاموں کیلئے مخصوص فنڈ ان کے حوالے کر دے۔ ان کا جی چاہے تو ان فنڈز میں سے اپنے غریب عوام پر صرف کریں، سڑکیں بنوائیں، ہسپتال سکول کالج بنوائیں، غربت دور کرنے کیلئے سکیموں پر پیسہ خرچ کریں یا سارے کے سارے فنڈز خود ہڑپ کر جائیں ان سے پوچھنے کا اختیار نہ تو حکومت کے پاس ہے اور نہ ہی کوئی ایسا انتظام کہ جس مقصد کیلئے پیسہ دیا جا رہا ہے اس کی کوئی جانچ پرکھ ہو۔ 68، 69 سال کی اربوں کھربوں روپے کی یہ امداد ان کے ذاتی ملکی اور غیر ملکی کھاتوں میں منتقل ہوتی رہی ہے۔ ان کی اولادیں بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہی ہیں، عیش و عشرت کی زندگی گزار رہی ہیں۔ بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر پاکستان اور اسلام دشمن قوتیں ان ”شہزادوں“ کو بہلا پھسلا کر سبز باغ دکھلا کر پاکستان کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرنے اور تخریب کاری کی تربیت دینے کیلئے سرگرم ہیں۔ آج بلوچستان میں جو صورتحال ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ اس صورتحال کے ذمہ دار وہاں کے سردار اور نواب ہیں کہ انہوں نے ریاست کے ساتھ طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور حکومت کو بلیک میل کر رہے ہیں۔ خیبر پی کے میں وزیرستان کے اندر طالبان کے بقول 70 کے قریب ملکی و غیر ملکی گروہ سال ہا سال سے مصروفِ تخریب کاری ہیں۔ مقامی سرداروں اور قبائلی عمائدین کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے علاقے کو پاک صاف رکھتے اس کے برعکس پاکستان میں جرم کرنے والے، قتل کرنے والے، بینک لوٹنے والے، اغوا برائے تاوان کے مجرم، کاریں چھیننے اور چوری کرنے والے بھتہ خور اور دیگر جرائم میں ملوث تمام کے تمام لوگوں کا تعلق فاٹا کے علاقوں سے نکلتا ہے۔ پاکستان کے جرائم پیشہ افراد کا محفوظ ٹھکانا بھی ”علاقہ غیر“ ہے۔ تخریب کاروں کو پچھلے چند سالوں میں اتنا آرگنائز کر دیا گیا ہے کہ وہ ریاست کو چیلنج کر رہے ہیں۔ پورے پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں کا نیٹ ورک (Develop) ڈویلپ ہو گیا ہے۔ جب چاہا، جہاں چاہا، جسے چاہا مار ڈالا اور بڑی سے بڑی تخریب کاری کرتے چلے آ رہے ہیں۔ پاکستان کی سکیورٹی کے ذمہ دار ادارے ان کے نشانے پر ہیں۔ ان کا ترجمان شاہد اللہ شاہد یہ ذمہ داری قبول کرتا چلا آ رہا ہے پاکستان کے میڈیا نیوز چینل اور اخبارات میں ”کارنامے“ بیان ہوتے رہے ہیں حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کی حکومت اور جنرل کیانی اور طالبان کے ہمدرد پاکستانی مذہبی لیڈروں کے پھیلائے ہوئے اس خوف کا شکار نظر آئے کہ اگر طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کی گئی تو پورے پاکستان کے دینی مدرسوں کے لاکھوں طالب علم ہتھیار لے کر سڑکوں پر نکل آئیں گے، ملک خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا۔ آصف زرداری اور جنرل کیانی نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں اور طالبان کو پورے ملک میں تباہی مچانے کی کھلی چھٹی دے دی جس کے نتیجے میں افواجِ پاکستان، پولیس، رینجر کو بے پناہ جانی و مالی نقصان کے علاوہ ساٹھ ہزار سے زیادہ بے گناہ پاکستانیوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ریاست کے وہ تمام وسائل جو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونے تھے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی حفاظت کیلئے مخصوص کر لئے، دفتروں کی دیواریں اونچی کر لیں، اپنی رہائش گاہ کے باہر بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کر کے اور پولیس چوکیاں بنا کر مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور عوام کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا جب کہیں کوئی دھماکہ یا تباہی پھیلی ایمبولینس، پولیس، رینجر لاشیں اٹھاتی نظر آئیں گویا مجرموں کو تلاش کرنا اور پکڑ کر کیفر کردار تک پہنچانا ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ خدا بھلا کرے پاکستان کے واحد منظم و مستحکم فوجی ادارے کا،کہ اس نے نام نہاد منتخب حکومت کو آپریشن ”ضرب عضب“ کرنے پر مجبور کیا ۔ آپریشن شروع ہونے کے بعد IDP'S کی بڑی تعداد نے نقل مکانی کرنی شروع کی یہاں ہمیں یہ بات کہنی پڑ رہی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کوئی ایسا نظام قائم کرنے کی کوشش نہیں کی جس سے IDP'S کو نہ صرف بہترین سہولت، مدد اور رہنمائی حاصل ہوتی، ان کے بھیس میں آنے والے تخریب کاروں کو پکڑا جاتا، جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ شکنی ہوتی، لاکھوں کی تعداد میں وہ لوگ بھی اس ہجوم میں شامل نہ ہو پاتے جن کے بارے میں نادرہ کا یہ کہنا ہے کہ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ غیر متعلقہ لوگ IDP'S میں شامل ہو گئے ہیں۔ حکومت اور قبائلی سرداروں کی ناکامی اور نااہلی کا پتہ تو اس بات سے چلتا ہے کہ ان کے پاس وہاں رہنے والوں کے اعداد و شمار بھی نہیں ہیں، شروع میں کہا گیا دو سے اڑھائی لاکھ لوگ نقل مکانی کریں گے لیکن اب تک جن کی رجسٹریشن ہو چکی ہے ان کی تعداد نو لاکھ سے زیادہ ہے جو افغانستان چلے گئے ہیں ان کی تعداد بھی ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ”علاقہ غیر“ سے آنے والے تمام لوگوں کو یہ اختیار دے دیا گیا کہ وہ جہاں چاہیں اپنی رہائش کا بندوبست کر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں نہ صرف افراتفری مچی، مستحق IDP'S کی دادرسی نہ ہوئی۔ اربوں روپے کے فنڈز اور مخیر اداروں کی طرف سے روانہ کئے گئے سینکڑوں ٹرک اور ہزاروں ٹن اشیاءہاتھی کی داڑھ میں زیرہ ثابت ہو کر رہ گئیں۔ اگر کسی منظم طریقے سے کیمپ بنا کر ان IDP'S کو علاقہ غیر میں ہی رکھا جاتا ان کی نقل و حرکت کو محدود رکھا جاتا تو نہ صرف یہ کہ سب کی داد رسی ہوتی، کسی کو کوئی شکایت نہ ہوتی بلکہ ان کے بھیس میں آنے والے جرائم پیشہ افراد بھی گرفت میں آجاتے لیکن ایسا لگتا ہے منتخب حکومتیں اور بیورو کریسی سب کی سب طے کر کے بیٹھے ہیں کہ عقل کا کوئی کام کرنا ہی نہیں۔ آپریشن کے شروع ہونے کے بعد پندرہ بیس دن پورے ملک میں سکون رہا، کسی ایک مدرسے یا پھر ان کے ہمدرد، کوئی آوازِ احتجاج بلند کرنے سے قاصر رہے اسکے برعکس پوری قوم ضرب عضب کی کامیابی کیلئے اپنی بہادر افواج کے ساتھ کھڑی ہے اس آپریشن کی وجہ سے میران شاہ، امیر علی کے علاقے نیوز چینل پر دیکھنے کو ملے۔
 پاکستان میں سولر انرجی کا استعمال ابھی خال خال ہے لیکن تخریب کاروںکے تمام مراکز روشن ہیں۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا انہیں نہیں کرنا پڑتا ۔ ان کے بازاروں میں دُکانوں پر منشیات، ہر قسم کا اسلحہ، خودکش جیکٹس تک برائے فروخت موجود ہیں۔ نیٹ کیفے جگہ جگہ کھلے ہیں اس طرح کی دیگر اشیاءبھی بازاروں میں دستیاب ہیں۔ ان تصویری شواہد کے حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پورا قبائلی نظام ان علاقوں میں اب قابل عمل نہیں رہا۔ ہمارے پولیٹیکل ایجنٹ بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر رہے۔ پاکستان میں اگرچہ کوئی آئیڈیل نظام نہیں ہے لیکن پھر بھی یہ نظام فاٹا کے علاقوں میں بھی نافذ ہونا چاہیے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ لاکھوں افراد کو حق رائے دہی سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ ان کے قبائلی سردار دس پندرہ ووٹوں سے فاٹا کے نام پر سینیٹ اور قومی اسمبلی میں منتخب ہو جاتے ہیں اور لاکھوں ووٹوں سے منتخب ہونے والے ایم این اے کے برابر حقوق کے مالک بن جاتے ہیں۔ یہ ڈرامہ ختم کیا جائے، فاٹا کے عوام کو ”ون مین ون ووٹ“ اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو مکمل آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملے تاکہ وہ بھی اپنے رہنما اور لیڈر چُن سکیں۔ قبائلی سردار، نواب، تمن داروں کی غلامی سے باہر نکلیں، پاکستان کے عوام کو بھی ان علاقوں میں جانے اور رہنے بسنے، کاروبار کرنے کا اختیار ملے وہ تمام اشیاءجن کی فروخت پاکستان میں ممنوع ہے ان کی فروخت ان علاقوں میں بھی ممنوع ہونی چاہیے۔ کسی اغوا برائے تاوان کے مجرم اور کسی بھی وطن دشمن سرگرمیوں میں ملوث گروہ کو منظم ہونے اور من مانی کارروائیاں کرنے کا موقع نہ ملے، جب فاٹا کے تمام رہنے والے پورے پاکستان میں جہاں چاہے آ جا سکتے ہیں، کاروبار کر سکتے ہیں، زمین جائیداد خرید سکتے ہیں تو باقی پاکستانیوں کو ”علاقہ غیر“ کے نام پر کیوں روکا جاتا ہے۔ آج کے زمانے میں دنیا سُکڑ کر مٹھی میں آچکی ہے توپھر کیا وجہ ہے کہ حکومت فاٹا کے علاقوں کو صوبوں کے ماتحت کرنے سے ہچکچا رہی ہے؟ اگر ان علاقوں کو ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح موجود سسٹم میں شامل کر لیا جائے تو پورے ملک میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کو قابو کیا جا سکتاہے اس وقت تو ہر مجرم کو یہ پتہ ہے کہ وہ جب چاہے ”علاقہ غیر“ میں پناہ لے سکتا ہے۔انشاءاللہ جلد ہی IDP'S اپنے گھروں کو واپس جائیں گے حکومت کو چاہیے مکمل جانچ پرکھ کے بعد وہاں کے رہائشیوں کو ہی داخل ہونے کی اجازت دی جائے۔ غیر متعلقہ لوگ گرفت میں آ جائیں گے کیونکہ حکومت کے پاس رجسٹریشن کا ریکارڈ موجود ہے۔ اگر ذرا سی سمجھ داری، دانشمندی سے کام لیا جائے تو ریاست کے اندر ریاست بنانے والوں، تخریب کاروں سے نجات مل سکتی ہے۔ افغانستان کی سرحد پر موثر کنٹرول کی ضرورت ہے۔ آثار بتا رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں بھارت اور افغانستان مل کرپاکستان کے لئے مسائل پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہنگامی صورت حال کا سامنا فوری طور پر پر قومی رضا کار فوج تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ملک کے مقتدر طبقات نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو قوم کے ساتھ ساتھ انہیں بھی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی !

مزیدخبریں