لاہور (کلچرل رپورٹر) معمار نوائے وقت جناب مجید نظامی معیاری صحافت کے علمبردار تھے، وہ جنیوئن صحافی تھے۔ انہوں نے سب سے بڑے سیاسی عہد کے مقابلے میں صحافت کو ترجیح دی اور صدارت کا عہدہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ نظریہ پاکستان اور مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں مجید نظامی کا کردار مثالی ہے۔ وہ سب سے بڑے پاکستانی تھے اور عظیم انسان تھے۔ وہ علامہ اقبال اور قائد اعظم کے نظریات کے محافظ تھے۔ پاکستان کے دیگر مشاہیر کی طرح مجید نظامی کا یوم وفات بھی قومی سطح پر منایا جانا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے لاہور ایڈیٹرز کلب کے زیراہتمام آواری ہوٹل میں مجید نظامی کی یاد میں منعقدہ ایک تعزیتی اجلاس میں کیا جس کی صدارت لاہور ایڈیٹرز کلب کے صدر اور خبریں گروپ کے چیف ایڈیٹر ضیا شاہد نے کی۔ مقررین میں الطاف حسین قریشی، ایڈیٹر دی نیشن سلیم بخاری، ڈپٹی ایڈیٹر نوائے وقت سعید آسی، روزنامہ جرا¿ت وتجارت کے ایڈیٹر جمیل اطہر، مون ڈائجسٹ کے ایڈیٹر اور کالم نگار، ادیب جاودانی، روزنامہ دنیا کے ایگزیکٹو ایڈیٹر اور دنیا نیوز کے بیورو چیف سلمان غنی، روزنامہ نئی بات کے گروپ ایڈیٹر عطاءالرحمان، روزنامہ طاقت کے ایڈیٹر رحمت علی رازی، نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید، ممتاز کالم نگار اسد اللہ غالب، سینئر صحافی قدرت اللہ چودھری، ممتاز طاہر، خالد فاروقی، علی احمد ڈھلوں، میاں حبیب اللہ شامل تھے۔ صدر مجلس ضیا شاہد نے کہا کہ میں نے ساڑھے دس سال نوائے وقت میں کام کیا اور اس دوران میگزین ایڈیٹر، ڈپٹی ایڈیٹر اور ریذیڈنٹ ایڈیٹر کراچی کے عہدوں پر کام کیا۔ دوران ملازمت نظامی صاحب سے قریبی رابطہ رہا ہے اور اس دوران میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا وہ بیک وقت ایڈیٹر اور منیجنگ ایڈیٹر تھے۔ یہ دونوں خوبیاں عنایت اللہ مرحوم کے بعد ان میں تھیں۔ جب میں بیمار ہوا تو ایک دفعہ ہسپتال اور دو دفعہ میرے گھر خیریت دریافت کرنے آئے۔ میں نے اپنا اخبار شروع کیا تو انہوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔ نظریہ پاکستان کے فروغ میں ان کا کردار مثالی ہے اور ان کا یہ مشن جاری رہے گا۔ سینئر صحافی الطاف حسین قریشی نے کہا کہ ہم بڑے خوش نصیب ہیں کہ ہمیں مجید نظامی کے عہد میں جینے اور ان کے ساتھ چلنے کا موقع ملا۔ حکمرانوں کے ساتھ بڑی بہادری کے ساتھ بات کرتے تھے۔ایڈیٹر دی نیشن سلیم بخاری نے کہا کہ جب ساڑھے چار سال قبل میں نے نوائے وقت گروپ جوائن کیا تو نظامی صاحب نے میرا انٹرویو کیا جس میں انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کو علم ہے کہ میں بھارت کا دشمن ہوں اس کے جواب میں نے کہا کہ جو بھارت کا دشمن ہو وہ پاکستان کا دشمن کیسے ہو سکتا ہے اس کے بعد انہوں نے کہا کہ آپ جائیں اور کام شروع کریں۔ انہوں نے کہا نظامی صاحب بہت بہادر تھے پچھلے دنوں ایک اعلیٰ سطحی امریکی وفد نظامی صاحب کے گھر انہیں ملنے گیا ملاقات کے دوران امریکیوں نے کہا کہ یہ جو آپ اتحاد ثلاثہ میں امریکہ کو شامل کرتے ہیں یہ ہمارے لیے گالی ہے اس کے جواب میں نظامی صاحب نے کہا کہ یہ گالی ہم دیتے رہیں گے کیونکہ پنجاب میں دشمن کے دوست کو دشمن تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں نوائے وقت کے اداریے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ ڈپٹی ایڈیٹر نوائے وقت سعید آسی نے کہا کہ مجید نظامی کا شمار علامہ اقبال اور قائد اعظم جیسے مشاہیر میں ہوتا ہے۔ حکومت سے درخواست ہے کہ نظامی صاحب کا یوم وفات قومی سطح پر منایا جائے۔ اخباری مالکان اے پی این ایس کے عہدیداروں سے بھی درخواست ہے کہ ان کے یوم وفات پر تعطیل کا اعلان کرے۔ نظریہ پاکستان کے فروغ کیلئے ان کی خدمات قابل تحسین ہیں۔ بطور ایڈیٹر بھی ان کا کردار مثالی ہے۔ وہ نوائے وقت کو ایک فیملی کے طرح چلاتے تھے۔ میں 33 سال سے اس ادارے میں کام کر رہا ہوں۔ اس دوران ٹریڈ یونین بھی کی مگر وہ ہمیشہ محبت سے پیش آئے اس کی مثال یہ ہے کہ میں نے چودھری خادم حسین کی بیماری پر کالم لکھا تو وہ ان کی تیمارداری کیلئے میرے ساتھ ان کے گھر گئے۔ روزنامہ دنیا کے ایگزیکٹو ایڈیٹر سلمان غنی نے کہا کہ میں نے 15 سال نوائے وقت میں کام کیا ہے وہ ہمارے ایڈیٹر ہی نہیں تھے بلکہ باپ کی طرح تھے ان کی صحافت مادرپدر آزاد نہیں تھی بلکہ قومی مفادات پر مبنی تھی وہ جمہوریت اور قومی اداروں کی مضبوطی چاہتے تھے۔ آنے والے دنوں میں نظامی صاحب کی کمی شدت سے محسوس کی جائے گی ان کی پانچ ترجیحات تھیں نظریہ پاکستان، کشمیر، ایٹمی پروگرام، کالا باغ ڈیم اور پاکستان۔ عطاءالرحمان نے کہا کہ نظامی صاحب صحافت کے امام تھے ان کے اصول ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ رحمت علی رازی نے کہا کہ میں نے نظامی صاحب کے ساتھ کام کیا ہے اور اس دوران ان سے بہت کچھ سیکھا۔ میں کالا باغ ڈیم کشمیر کے بارے میں ان کی پالیسی کو فالو کرتا ہوں۔ ذوالفقار راحت نے کہا کہ حمید نظامی جینوئن صحافی تھے۔ خالد فاروقی نے کہا کہ نظامی صاحب نظریاتی صحافت کے امام تھے۔ چودھری قدرت اللہ نے کہا کہ میں نے ان کے ساتھ کام کیا جس پر مجھے فخر ہے۔ ممتاز طاہر نے کہا کہ وہ نظریاتی سرحدوں کے محافظ تھے۔ شاہد رشید نے کہا کہ وہ نظامی صاحب سچے مسلمان تھے وہ موت سے نہیں ڈرتے تھے۔ وہ صحافت کے امام تھے ان کے اصول مشعل راہ ہیں۔ جمیل اطہر نے کہا کہ نظریہ پاکستان کے فروغ میں ان کا کردار مثالی ہے۔ ادیب جاودانی نے کہا کہ صحافت کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے فروغ میں ان کا اہم کردار ہے۔ علی احمد ڈھلوں نے کہا کہ وہ واحد صحافی تھے جنہوں نے ہمیشہ حکومتی آفرز کو ٹھکرایا انہیں پاکستان کی صدارت کی آفر ہوئی مگر انہوں نے ٹھکرا دیا۔ اس موقع پر لاہور ایڈیٹر کلب کی طرف سے اسداللہ غالب نے سعید آسی کی تجویز قرارداد پیش کی کہ حکومت ڈاکٹر مجید نظامی کا یوم وفات دیگر مشاہیر کی طرح قومی سطح پر منانے کا اعلان کرے۔ اجلاس کے آخر میں جناب مجید نظامی کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔