سیاسی عورت کی اصل حقیقت ماں اور ماں دھرتی

پچھلے دنوں شہلا رضا کے نام لگا کے ایک بات بہت اچھالی گئی۔ یوسف رضا کے حوالے سے بھی ایک بات آئی تھی۔ دونوں کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے نواز شریف کے ساتھ تھا اور ’’صدر‘‘ زرداری کے ساتھ بھی بات کو جوڑا گیا۔ پیپلز پارٹی کے لوگوں نے اس کے لئے مختلف باتیں کیں۔ فرق یہ ہے کہ یوسف رضا اپنی بات پہ ڈٹے رہے تو کچھ تو کوئی بات ہوئی ہو گی۔ مشرف کے حوالے سے پہلے نواز شریف اور اس کے ذاتی لوگوں کا موقف کچھ اور تھا اور اب کچھ اور ہے۔ ہمارے سیاستدان اپوزیشن میں کچھ اور ہوتے ہیں اور جب پوزیشن میں ہوتے ہیں تو کچھ اور ہو جاتے ہیں۔ مشرف کے میزبان سعودی عرب کے بادشاہ بھی تھے اور تب وہ صدر نہیں تھے۔ انہیں شاہی طیارہ انگلستان چھوڑنے گیا تھا۔ نواز شریف اور اس کے لوگ تب خاموش تھے۔ مشرف پاکستان بھی رہے۔ کوئی اعتراض کسی کو نہ تھا۔ پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں قرارداد لانے کی بات کی مگر نون لیگئے دبکے رہے۔ پیپلز پارٹی نے مقدمہ نہ چلایا مگر اب اس کے خلاف بیانات آتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کس کی زبان بولتا ہے۔ اس کی وضاحت برادرم فواد چودھری کر سکتا ہے؟ اقتدار میں تھے تو مشرف ٹھیک تھا۔ اب ٹھیک نہیں ہے۔ ن لیگ کے لئے بھی اپوزیشن میں مشرف غلط نہیں تھا۔ اقتدار میں صرف وہی غلط ہے مگر غلطیاں کس کس سے نہیں ہوئیں؟
نواز شریف ’’صدر‘‘ زرداری پر بہت بھروسہ کرتے ہیں۔ زرداری کس پر بھروسہ کرتے ہیں۔ نواز شریف کو معلوم نہیں ہے۔ وہ امریکہ گئے اور کیا کیا باتیں ہوئیں۔ جوبائیڈن نائب صدر امریکہ سے صدر زرداری کی ملاقات اتفاقی اور لمحاتی تھی۔ ایک افطار ڈنر میں اچانک ’’ٹاکرہ‘‘ ہو گیا۔ اس سے ایسی ایسی ٹکریں یار لوگوں نے ماریں کہ مزا آ گیا مگر بدمزگی بھی ہوئی۔ یہ باتیں تو شہلا بی بی نے نہ کی تھیں۔ اور وہ بات جو شہلا کے ذمے لگائی گئی ہے وہ انہوں نے خود بعد میں کہا کہ میں نے نہیں کہی تھی۔ یہ بات اس طرح نہ ہوئی تھی۔ بات سے بات نکالی گئی اور بات کا پتنگڑ بنا دیا گیا۔ شہلا رضا نے بھی یہ بات عائشہ بخش کے سوال کے جواب میں کہی تھی۔ تو اصل بات تو سوال میں تھی اور سوال کرنے والی کے دل میں تھی۔ ویسے عائشہ بخش مجھے پسند ہے۔ وہ نیوز اینکرنگ میں مختلف ہے۔ نیوز ریڈر اور نیوز اینکر میں فرق ہے۔ جیسے کمپیئر اور اینکر پرسن میں فرق ہے۔ مرے خیال میں کمپیئر بہتر ہے۔ طارق عزیز اور جگن بی بی کمپیئر ہیں۔ مجھے بھی عائشہ بی بی نیوز ریڈر کے طور پر پسند ہے۔ شہلا رضا کے حوالے سے میں نے بھی ایک کالم میں کچھ ذکر کر دیا تھا۔ جس سے شہلا رضا کے بقول اسے اچھا نہیں لگا۔ اس کے ساتھ فون پر بات ہوئی۔ اس نے پیپلز پارٹی کے ایک مخلص اور محنتی کارکن لیڈر اور ترجمان برادرم منور انجم کا ذکر کیا۔ شہلا رضا کا یہ پروگرام شاید پیپلز پارٹی کے صرف منور انجم نے دیکھا اور انہوں نے تصدیق کی یہ بات اس طرح شہلا رضا نے نہیں کی تھی۔ انہوں نے ایک میسج (ایس ایم ایس) ’’صدر زرداری کو بھی کر دیا۔ شہلا نے منور انجم کی تعریف کی۔ بے نظیر بھٹو منور انجم کو بہت پسند کرتی تھیں۔ مگر زرداری کو یہ بات پسند نہ آئی تھی مگر منور انجم پارٹی اور زرداری کے ساتھ وفادار ہے۔
سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارا میڈیا باتوں کی تحقیق کئے بغیر ایک صورتحال کیوں بنا دیتا ہے کہ بعد میں وضاحتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ تائید اور تردید کے لئے بیانات آنے لگتے ہیں۔ اس حوالے سے اگر ’’صدر‘‘ زرداری یا نواز شریف کی طرف کوئی وضاحتی بات کی جاتی تو معاملہ بالکل تھم جاتا۔ یہ خاموشی کیا ظاہر کرتی ہے؟ کوئی بات تو ماحول میں تھی کہ میڈیا نے اسے پکڑ لیا۔ اس کی بازگشت ابھی تک فضائوں میں ہے۔
شہلا رضا نے وضاحت بھی کر دی ہے جو ایک طرح اس بات کی تردید ہے۔ میں نے اپنے کالم میں اس کا ذکر کیا تو وہ اس صورتحال میں گشت کرنے والی باتوں کی وجہ سے تھا ورنہ میں شہلا رضا کے حوالے سے یہ بات کیوں کرتا۔ انہوں نے ایک بات اور بھی مجھے یاد دلائی کہ میں واہ کینٹ میں ممتاز شاعرہ اور کالم نگار نوائے وقت اور مجید نظامی سے محبت کرنے والی محترمہ عائشہ مسعود کی شاعری کی کتاب کی تقریب میں گیا تھا۔ اس تقریب کی کمپیئرنگ شہلا رضا نے کی تھی۔ میں مضمون پڑھ کے آ گیا تھا۔ یہ ایک اچھی تقریب تھی۔ عائشہ نے بہت اعلیٰ شاعری سنائی۔ شہلا کو یاد تھا کہ میں نے اپنی نانی ماں کا ذکر بھی کیا تھا۔ وہ سانولی بڑھیا بڑی شاندار عورت تھی۔ وہ پٹھانوں کے قبیلے سے نہ تھی۔ وہ جاٹ تھی۔ غالباً یہ ہماری بستی میں پہلی محبت کی شادی تھی۔ نانی کی محبت اور خدمت نے میرے سخت گیر نانا کے دل کو پگھلا دیا تھا۔ انہوں نے نانی سے کبھی کوئی بات چیت نہ کی ہو گی۔ محبت میں باتیں تو شادی سے پہلے ہوا کرتی ہیں۔ نانا کو ہم بابا کہتے تھے۔ وہ سچے کھرے اور رعب والے آدمی تھے۔ مجھے تب عورت کی عظمت جانفشانی اور قربانی کا اندازہ ہوا جب وہ مر گئی۔ بظاہر نانا نے اس کے لئے کسی غم کے تاثر کا پتہ نہ چلنے دیا۔ چند دنوں کے بعد وہ ایک دیوار کے سائے میں اداس کھڑے تھے۔ مجھے وہ دیوار گریہ لگی۔ میں نے پوچھ لیا کہ بابا آج آپ اداس اور تنہا لگ رہے ہو۔ نانا نے مجھے دیکھا۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے مجھے بہت پیار سے بلاتے تھے۔ کہنے لگے ’’پتر تری نانی مر گئی ہے اور میں یتیم ہو گیا ہوں۔‘‘ اپنی بیوی کی موت پر یہ جملہ مجھے بہت بامعنی اور معنی خیز لگا۔
آج مجھے احساس ہوا کہ عورت کا مقام کیا ہے۔ جو عورت اپنی بیوی ہونے کے منصب کا احساس کر لے۔ وہ دنیا جنت بنا سکتی ہے۔ گھر جنت بن جائے تو وطن بھی جنت بن سکتا ہے۔ وطن بھی ایک بڑا گھر ہوتا ہے۔ ہم وطن کو مادر وطن کہتے ہیں اور اسے ماں دھرتی بولتے ہیں۔ ماں عورت ہے اور یہ مقام اسے مرد سے مختلف اور بلند و بالا کر دیتا ہے۔ مرد اس حقیقت کو جان لے کہ میری بیوی میرے بچوں کی ماں ہے تو اسے عورت کی عزت کرنا آ جائے گا۔ نانا کے اس جملے کے بعد میں نے سوچا کہ زوجہ کو زوجہ محترمہ تو کہا جاتا ہے آج وہ زوجہ ماجدہ بن گئی ہے اور یہ بات ہمیں والدہ ماجدہ کی یاد دلاتی ہے۔
پیغمبر اعظم رحمت اللعالمین محسن انسانیت رسول کریم حضرت محمدؐ نے فرمایا کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ یہ جملہ اب ایک عام حقیقت بن چکا ہے۔ اس کی تشریح میں بابا عرفان الحق نے فرمایا کہ حضورؐ نے ماں کی کوئی تخصیص نہیں فرمائی۔ ماں ماں ہے۔ وہ بوڑھی ہو یا جوان ہو یا غیرمسلم ہو۔ مسلمان ہندو مسیحی ماں میں کوئی فرق نہیں مگر یہودی ماں فلسطینی بچوں کی ہلاکت پر گھروں سے نکل کر احتجاج کیوں نہیں کرتی۔ آج کے ظالم ماحول میں ماں کے رشتے کے لئے بھی عجیب عجیب خیال میرے دل میں آتے ہیں۔ یہ رشتہ متنازعہ بنا دیا گیا تو باقی کیا رہ جائے گا۔ انسانیت یتیم ہو جائے گی۔
ھن تے کجھ نہیں نظری آندا
ھور اک دیوا بال نی مائے
اب تو کچھ نظر آتا۔ اندھیرے اور اندھیر میں فرق مٹ گیا ہے۔  اے ماں تو اپنے پیار سے  ایک اور چراغ روشن کر دے تاکہ ظالموں کے دلوں  میں بھی روشنی کی کرن  گولی کی طرح لگے
شہلا جی کے احتجاج سے  میرا دل کہاں کہاں  در بدر ہو گیا ہے۔ ایک فلسطینی حریت پسند شاعر  محمود درویش کی نظم  کی ایک لائن ملاحظہ کریں۔  وطن اپنی ماں کے ہاتھوں کی پکی ہوئی روٹی کھانے کا نام ہے۔ چولہے  مسمار کرائو گے تو بچے کیا کریں گے۔ ماں کیا کرے گی۔ شہلا رضا ایک مخلص اور سچے دل والی بہادر سیاسی کارکن خاتون ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے اس کے دو بچے ایک حادثے میں ایک ساتھ مر گئے تھے۔ ایک دکھی ماں وطن کے بچوں کے دکھ کو محسوس کر سکتی ہے۔ انہوں نے  پہلی عمر میں جیلیں کاٹیں اور یہ نوازشریف  کے پہلے دور حکومت کی کہانی  ہے یہ کہانی قربانی سے بھری ہوئی ہے۔  کسی نے بتایا کہ وہ ابھی تک کرائے کے گھر میں رہتی ہیں ہمارے لئے تو سارا وطن  کرائے کا گھر بنا دیا گیا ہے۔ ہم 14 اگست کا انتظار کریں یا 14 اگست ہمارا انتظار کرے۔

ای پیپر دی نیشن