کرا چی (آن لائن) ایل این جی کی درآمد کے لیے قطر سے باضابطہ معاہدہ رواں ماہ یا ستمبر تک طے کرلیا جائے گا۔ انڈسٹری ذرائع کا کہنا ہے کہ قطر کے ساتھ ایل این جی کی درآمد کے معاہدے کے لیے تمام امور پر اتفاق رائے ہوچکا ہے اور تمام دستاویزات بھی تیار کرلی گئی ہیں تاہم معاہدوں پر دستخط نہیں کیے گئے۔ معاہدے کے لیے حکومت پاکستان کو قطر حکومت کو ساورن گارنٹی فراہم کرنا ہوگی جس کے لیے دونوں حکومتوں میں گیس سپلائی ایگریمنٹ کے علاوہ بھی الگ معاہدہ کرناہوگا۔ پاکستان کو توانائی بحران سے نکالنے میں درآمدی ایل این جی کا کردار اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ پاکستان میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کی تنصیب پر ماحولیاتی خدشات اورکوئلے کی ترسیل کی مشکلات کے پیش نظر ایل این جی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو ترجیح دی جارہی ہے تاہم ملکی سطح پر ایل این جی کی درآمد میں شریک قومی اداروں کی جانب سے ایل این جی کی ترسیل پر ریونیو کمانے کی پالیسی نے ایل این جی کا ذریعہ بھی مہنگا بنا دیا۔ انڈسٹری ذرائع کے مطابق پورٹ قاسم اتھارٹی ایل این جی کے جہاز پر 6سے 7 لاکھ ڈالر پورٹ چارجز وصول کررہی ہے جس سے ایل این جی کی درآمدی لاگت میں نمایاں اضافے کا سامنا ہے۔ اسی طرح سوئی سدرن اور سوئی نادرن گیس کمپنیاں بھی گیس پائپ لائن کی رائلٹی اور سروس چارجز کی مد میں بھاری ریونیو کمانا چاہتی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ درآمدی ایل این جی کی انٹرنیشنل مارکیٹ میں قیمت کم ہونے کے بعد پاکستان کے لیے فرنس آئل کے مقابلے میں ایل این جی کے ذریعے بجلی پیدا کرکے زرمبادلہ بچانے کا بہترین موقع میسر ہے تاہم ملکی سطح پر ٹیکسوں اور حکومتی اداروں کے بھاری سروس چارجز کی وجہ سے ایل این جی کی اصل قیمت کے مقابلے میں 50فیصد اضافہ ہورہا ہے۔