گزشتہ روز راقم اسلام آباد گیا۔ اسلام آباد جانے کا مقصد آل پاکستان پرائیویٹ سکولز منیجمنٹ ایسوسی ایشن راولپنڈی ڈویژن کے زیراہتمام ایک تعلیمی کانفرنس میں بطور خصوصی شرکت کرنا تھی۔ یہ کانفرنس اسلام آباد ہوٹل میں منعقد ہوئی۔ راقم نے تعلیمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 1947ءمیں ملک معرض وجود میں آیا تو شرح خواندگی 17 فیصد تھی جس کو اگر ہر سال ایک فیصدی ہی بڑھایا جاتا تو اب تک خواندگی کی شرح کو بڑھ کر 68 فیصد ہونا چاہئے تھا مگر حکومت کی جانب سے تعلیمی پالیسیوں میں یکے بعد دیگرے تبدیلیوں کے باعث فروغ تعلیم کا عمل سست روی کا شکار رہا ہے۔ وفاقی وزارت تعلیم کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی 46 فیصد ہے جبکہ خواتین کی شرح خواندگی 26 فیصد ہے۔ پاکستان میں آج بھی کئی علاقوں میں عورتوں کی تعلیم پر پابندی ہے حالانکہ اسلام مرد اور خواتین دونوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے۔ پاکستان میں تعلیم پر بہت کم بجٹ خرچ کیا جاتا ہے۔ سیاستدان اقتدار میں آنے سے پہلے عوام سے وعدہ کرتے ہیں کہ وہ تعلیم کے فروغ کو اپنی ترجیح بنائینگے اور تعلیم کا بجٹ 4 فیصد کیا جائیگا۔ قومی بجٹ میں تعلیم کےلئے صرف 2 فیصد بجٹ مختص کیا جاتا ہے اور مالی سال کے دوران 2 فیصد بجٹ بھی تعلیم پر خرچ نہیں کیا جاتا۔ حکمران اشرافیہ عوام کو جاہل رکھنا چاہتی ہے تاکہ ان کا استحصال ہوتا رہے اور اشرافیہ عیش و عشرت کی زندگی گزارتی رہے۔
راقم نے کہا کہ نجی تعلیمی سیکٹر اس وقت فروغ تعلیم میں حکومت کا دست راست تصور کیا جاتا ہے مگر ان کو سہولیات دینے کی بجائے ان پر متعدد ٹیکسز عائد ہیں۔ فیس کی وصولیوں پر الگ سے ٹیکس لگا دیا گیا ہے جبکہ کتب اور سٹیشنری پر بھی ٹیکس عائد کر کے تعلیم کو مہنگا بنا دیا گیا ہے۔ پنجاب حکومت کی طرف سے نجی سکولوں پردس فیصد بچوں کو پڑھانے کی ذمہ دار بہت بڑی زیادتی ہے کیونکہ وفاق اور پنجاب حکومت نجی سکولوں پر عائد ٹیکسز کا خاتمہ نہیں کرتیں تب تک ہم دس فیصد بچوں کو فری تعلیم نہیں دینگے۔ راقم نے کہا اس وقت نئے سکولوں کی کمی کو نجی سیکٹر پورا کر رہا ہے اور 48 فیصد بچوں کو نجی سکولوں میں اعلیٰ و معیاری تعلیم سے آراستہ کیا جا رہا ہے‘ لیکن حکومت ان اداروں کی کوئی حوصلہ افزائی نہیں کر رہی۔ کانفرنس سے راولپنڈی ڈویژن کی تنظیم کے صدر ابرار احمد خان نے بھی خطاب کیا۔
تعلیمی کانفرنس کے بعد راقم کی روزنامہ نوائے وقت کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر جاوید صدیق‘ روزنامہ اوصاف کے چیف ایڈیٹر مہتاب خان اور متعدد سینئر صحافیوں سے ملاقات ہوئی۔ انکا کہنا تھا کہ وزیراعظم نوازشریف کا یہ بیان بڑا خوش آئند ہے کہ ہم پی ٹی آئی کے اراکین کی رکنیت ختم نہیں کرنا چاہتے۔ جمہوری عمل کو اچھے انداز میں آگے بڑھنا چاہئے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کو میاں نوازشریف کے اس مطالبے کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ وہ پی ٹی آئی کے خلاف تحاریک کو واپس لے لیں۔ اسی میں ملک و قوم کی بہتری ہے۔
اسلام آباد کے صحافتی حلقوں میں ایک اخبار میں شائع ہونیوالی اس خبر کا بڑا چرچا ہے کہ اشتہارات کی ادائیگی کیلئے وزارت اطلاعات نے وزیراعظم کر چکر دیکر 37 کروڑ روپے منظور کرا لئے۔ اس سلسلے میں راقم نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ 2008ءسے 2012ءتک کے اخبارات میں سرکاری اشتہارات شائع ہونے کی رقم 307 ملین تھی۔ یہ سمری وزارت اطلاعات نے وزیراعظم کو نہیں منسٹری آف فنانس کو بھیجی تھی اور اسی سمری کو وزیراعظم نے منظور کیا تھا۔ راقم کو معتبر ذرائع نے بتایا کہ اخبار میں ”اشتہارات کی ادائیگی“ سے متعلق خبر حقائق کے منافی ہے۔ خبر میں یہ تاثر دینا کہ وزارت اطلاعات نے وزیراعظم کو غلط معلومات فراہم کرکے سمری منظوری کروائی‘ انتہائی نامناسب ہے۔
گزشتہ دنوں اے این پی اور سی پی این ای کے ایک نمائندہ وفد نے وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کی تھی اور وفاقی حکومت کے ذمہ دار اشتہارات کی ادائیگی کا دیرینہ مطالبہ کیا یہاں پر وضاحت کی جاتی ہے کہ پچھلے دو سال سے اے پی این ایس اور سی پی این ای بار بار مطالبہ کر چکے ہیں کہ وفاقی حکومت کے مختلف اداروں کے ذمہ واجب الادا اشتہارات کی ادائیگی کی جائے اور متعدد بار ان دونوں تنظیموں نے وفاقی حکومت کے خلاف دھمکی آمیز اشتہارات بھی شائع کئے ہیں۔ مزیدبرآں اے پی این ایس نے کافی عرصے تک ان بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے وفاقی حکومت کے اشتہارات شائع ہونے کو معطل کئے رکھا۔ اب جبکہ وزیراعظم نے اخبارات کے مالکان کے پُرزور اصرار پر ان کی طرف واجب الادا رقم کی منظوری دیدی ہے تو اس پر تنقید کرنا بلا جواز ہے۔ یہ تمام ادائیگیاں قانون کے مطابق صاف اور شفاف طریقے سے (اے جی پی آر) کے ذریعے کی جائیں گی۔جس اخبار نے یہ خبر شائع کی تھی اسکے خلاف وزارت اطلاعات نے 31 جولائی کو پریس کونسل آف پاکستان کو اس نوعیت کا ایک لیٹر لکھ دیا ہے کہ اس اخبار کیخلاف آرڈیننس 2002ءکےخلاف کارروائی کی جائے۔
راقم کی اسلام آباد میں وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات محمد اعظم سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور میڈیا کے مابین خوشگوار تعلقات کے فروغ اور رابطوں کو مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہوں۔ پرنٹ میڈیا کو دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کی قتل و غارت کی خبروں کو نمایاں طورپر صفحہ اول پر شائع نہیں کرنا چاہئے۔ ایسی خبریں پڑھنے سے عوام میں خوف و ہراس کی فضا پید ہوتی ہے۔ راقم کی اسلام آباد کے ہوٹل کے ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر سید رضوان ترمذی سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہے۔ سیروتفریح کیلئے لوگ پاکستان بھر سے آرہے ہیں۔
اہالیان اسلام آباد والے کیا کہتے ہیں؟
Aug 05, 2015