روحانی سفر

یقین جانیے کبھی انسا ن سالہا سال منصو بہ بندی کرتا ہے لیکن عین وقت اُسکی ساری پلاننگ سمندر کے کنارے ریت کا گھروندہ ثابت ہوتی ہے۔اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ لمحہ بھر کیلئے اُس نے جس چیز کے متعلق سو چا بھی نہیں ہوتا پلک جھپکتے وہ نعمت اُسکی دستر س میں ہوتی ہے کچھ اسطرح کی معجزاتی کفیت سے اس رمضان میرا بھی گزر ہوا۔ میں روحا نیت کی دنیا کے مسافروں کی جوتیا ں سید ھا کرنے والا ایک ادنی فقیر ہوں ۔اسی سلسلے میں 23جون بروز منگل میں انہی مسافتوں کے ایک راہی محترم عبداﷲبھٹی کے پاس بیٹھا تھا ۔ مو صوف روحانیت کی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ بھٹی صاحب سے جیسے ہی نشست شروع ہوئی مسکرائے اوربولے کہ طارق صاحب سفر تو آپکے سر پر کھڑا ہے اُنکے اس مکالمے نے مجھے حیرت میں مبتلا کر دیا کیونکہ میرے ذہن خیال یا تصور کہیں بھی کسی سفر کے متعلق کوئی شائبہ یا واہمہ تک نہیں تھا ۔ کچھ دیر اُنکی صحبت میں گزارنے کے بعد میں نے اُن سے اجازت لی اور اپنے دیگر مشغولات میں مصروف ہو گیا۔ اگلے دن بروز بدھ میرے بچپن کے کلا س فیلو اوردوست میا ں اسلم بشیرکافون آیا کہ کل بروز جمعرات 25جون حاجی حبیب الرحمان سابق آئی جی پنجاب پولیس کے گھر محفل میلاد اور افطار ی ہے۔ حاجی صاحب ہر نئے چاند کی پہلی جمعرات جسے ہم لوگ " نو چندی" کہتے ہیں بڑے اہتمام کے ساتھ محفل میلا د منعقد کرواتے ہیں ۔ ایک ذکر الٰہی اور اور اوپرسے کھِلتے چہرے پر زیر لب مسکراہٹیں سمیٹنے اُنکی دعوت شرکت اس قدر تا ثیر رکھتی ہے کہ عدم شرکت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا چنانچہ25 جون کو ہم دونوں دوست نماز عصر اُنکے آستانے پر پہنچ گئے ۔ تلاوت کلام پاک اور بیان کے بعدنعت خواں نے حاضری روضہ رسول کا اس طرح سما ں باند ھاکہ محفل میں موجود ہر آنکھ اشک بار ہوگئی حاجی حبیب الرحمان اس کفیت میں ہم دونوں سے ہمکلام ہوئے کہ اس عشق کے مزے وہا ں چل کر کیوں نہیں لیے۔ انسان ہونے کے ناطے شیطان ہر وقت ساتھ رہتا ہے اُس نے دل میں لاکھ عذر ڈالے لیکن کہتے ہیں کہ جب اﷲ اور اُسکے رسولؐ کے گھر سے بلاوا آجائے تو تما م حجتیں بندشیں خس و خاشاک کی طرح سیلابی ریلے کی نذر ہو جاتی ہیں ۔ سو یہی ہوا پلک جھپکتے دو دن میں ویزہ لگنے سے لیکر جہاز کی بکنگ تک ہر چیز کا اہتما م کچھ اسطرح ہوا کہ " یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات ابتک بنی ہوئی ہے’’ پر میرا یقین میرے ایمان کی حدوں کو چھو گیا ۔ اس کا ر خیر کے دو کردارچوہدری محمود سیلم اور محترم شاہد جتوئی کا اگر ذکرنہ کروں تو اس خیر کے سفر کے ذکر میں کمی رہ جائے گی کیو نکہ حضور نبی اکرم ؐ کا فرمان ہے کہ اپنے محسنوں کو ہر وقت یاد کرو ۔ اسطرح دوسروں کو احسان کرنے کی تر غیب ملتی ۔ہم دونوں دوست 7 جولائی کو احرام کی دو سفید چادریں لپیٹے ہوئے اللہ کے گھر حاضری کے لیے نکل پڑے۔ اکادُ کا سفری مشکلات کے بعد الحمدﷲ نماز مغرب کے وقت ہم حرم شریف خانہ کعبہ میں موجود تھے ۔ گوکہ تین دفعہ پہلے بھی عمرہ کی سعادت نصیب ہو چکی لیکن اس دفعہ رمضان شریف اور وہ بھی آخری عشرہ کیا کیفیت تھی تحر یر یا تقر یر میں لانا ناممکن بس اتنا پتہ ہے کہ ’’کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا گستا خ اکھیا ں کتھے جا لڑیا ں‘‘ ۔ اذان مغرب کی صدا بلند ہوئی ۔ مسلمانوں کی صفا ت تو بے شمار لیکن ایک مہمان نوازی اور دوسرا نظم و ضبط جن دو افضل صفات کا ذکر اکثر پڑھا اور سنا تھا۔ اُن دونوں کا عملی مظاہرہ افطار کے وقت جب ان دو آنکھوں سے دیکھاتو یقین جانیے اپنے مسلمان ہونے پر فخر محسوس ہونے لگا ۔ تا حد ِ نظر جدھر آنکھ اُٹھ رہی تھی انسانوں کے سروں کی فصل نظر آرہی تھی ۔ حرم شریف میں جہاں بندگی کے اپنے قرینے، سلیقے ایک اطمینان سے دو چار کر رہے تھے وہیں دورانِ نماز سورۃ فاتحہ کی تکمیل پر امام صاحب کے ساتھ سب نمازیوں کی طرف سے "آمین ـــــ"کی صدا جب بلند ہوئی تو ایک طلسماتی سرور پورے ماحول کو آپنی گرفت میں لے گیا۔ اس طلسماتی ہیجان انگیز کیفیت کو دیکھ کر یہ بات سمجھ میں آرہی تھی کہ اسلام مخالف اقوام مسلمانوں سے اس قدر خائف کیوں ہیں۔مغرب کی نماز کے بعد خا نہ کعبہ کے طواف کے بعد خا نہ خدا کی چو کھٹ پر کھڑے ہو کر اپنے ملک پاکستا ن اپنے مرحوم والدین۔ اپنے اہل و عیال اور دوستوں کیلیے رو رو کر اس یقین کے ساتھ دعائیں کیں کہ اس جگہ ان دعائوں کی قبولیت کا وعدہ اﷲکی طرف سے ہے۔ اگلے تین دن اور رات انہی معمولات کے ساتھ اﷲکے گھر گزارنے کے بعد ہم مدینہ منورہ آگئے۔ اﷲکے گھر اور روضہ رسول دونوں پر حاضر کی اپنی آپنی کفیت اور اپنی اپنی لذت ہے۔ اللہ کے گھر بندگی کی ایک ایسی کیفیت جہاں بندہ اپنے آقاؐ کے سامنے دوزانو سجدہ ریز‘ ایک حاکم کے سامنے ایک محکوم باادب‘ ایک طاقتور کے سامنے ایک کمزور، ایک بادشاہ کے سامنے ایک گداگر کی حیثیت میں پیش ہوتا ہے اللہ کے گھر انسان حاضری کے وقت اپنی ذات کو اللہ کے آگے سرنڈر کرتا ہے جبکہ روضہ رسولؐ پر حاضری کے وقت وہ اپنی ذات، ماں باپ، اہل و عیال سب پر حضور نبی اکرمؐ کو فضلیت اور فوقیت دیتے ہوئے سب کچھ قربان کرنے کا عزم لیے ایک ایسے عشق میں مبتلا ہوتا ہے جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں وہ یہاں پر اپنی ذات ہی کھو دیتا ہے۔ حضورکے عاشقان جس طرف مسجد نبوی میں افطاری کے وقت اپنے ’’سفرہ‘‘ سجاتے ہیں اُنکی مثال نہیں د ی جاسکتی لیکن جو ’’سفرہ رسول‘‘ ہمارے دوست ملک خلیل جس سلیقے قرینے محبت اور عشق سے سجاتے ہیں وہ بھی عشق رسول کی ایک انتہا ہے اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہر مسلمان کو اپنے گھر اور روضہ رسول کا دیدار نصیب کرے اور سب کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔ ’’آمین‘‘

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...