جوڈیشل کمیشن اور کرپشن

Aug 05, 2015

تنویر ظہور

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین نے لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ ہماری جیت ہے۔ فیصلہ تحریک انصاف کی ہار نہیں بلکہ جمہوریت کی مضبوطی اور انتخابی اصلاحات کے معاملے میں اہم ہے“ ۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ عمران خان کی جیت نہیں ہے۔ ویسے جوڈیشل کمیشن بنوانے کی تُک نہیں تھی۔ اس لیے کہ جوڈیشل کمیشن با اختیار نہیں تھا۔ سب سے مشکل کام سازش کو ثابت کرنا ہوتا ہے۔ اس کا کوئی گواہ نہیں ہوتا۔ اگر منظم سازش ہوئی تو آپ کے پاس کیا ثبوت ہیں۔ یہ سیاسی معاملات ہیں۔ سیاست میں یہ کوئی نئی بات نہیں۔ حسین شہید سہروردی کو لیاقت علی خان نے ڈی سیٹ کیا۔ 1945-46ءمیں جی ایم سید کی رٹ پٹیشن کامیاب ہو گئی اس کے باوجود انہیں اسمبلی میں بیٹھنے نہیں دیا گیا۔ یہی صورتحال خان عبدالغفار خان کے ساتھ پیش آئی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی کے پاس کوئی دلیل نہ ہو تو وہ دوسرے فرقے کے لوگوں کو کافر قرار دے دیتا ہے۔ فیصلے نے نواز شریف کے دور حکومت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔
جہاں تک پی ٹی آئی کی سیٹیں خالی کرانے کا تعلق ہے تو اس کا نقصان تحریک انصاف کو نہیں ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے ہمیں ڈی سیٹ کر بھی دیا تو ہم دوبارہ الیکشن لڑ کے اسمبلیوں میں آجائیں گے۔
عمران خان پر فی الحال پیسہ لینے اور ملک سے باہر پیسہ بھیجنے کا کوئی سکینڈل نہیں۔ اسی لیے وہ حکمرانوں کو ملک میں اپنا پیسہ لے کر آنے اور اثاثے ظاہر کرنے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ آصف علی زرداری کے برطانیہ میں 34 ملین کے سرے محل کے بارے میں بات کی گئی جسے آف شور کمپنیوں نے 1995ءمیں زرداری کے لیے خرید کر ان کے شاہانہ ذوق کے مطابق اس کی آرائش کی تھی۔ زرداری نے اس کی ملکیت سے انکار کیا۔ جب عدالت نے کہا کہ اسے بیچ کر رقم حکومت پاکستان کو دے دی جائے تو آصف علی زرداری سامنے آئے اور اس کی ملکیت کا دعویٰ کر دیا۔ 1988ءمیں نیو یارک ٹائمز نے بے نظیر بھٹو، زرداری بدعنوانی پر تفصیلی فرد جرم شائع کی تھی۔ جان ایف برنز نے لکھا کہ کس طرح زرداری نے بے نظیر بھٹو سے شادی کو ایک ایسی قوت میں بدل دیا جسے چیلنج کرنا ممکن نہ ہو۔ ان کے کتنے ہی مقدمات کا ذکر کیا۔ ایک مقدمہ دبئی کے سونے کے ڈیلر کا تھا جس نے آصف علی زرداری کے کھاتے میں دس ملین ڈالر جمع کروائے اور بدلے میں اسے سونے کی درآمد پر اجارہ داری حاصل ہو گئی جو پاکستان کی جیولری کی صنعت کے حوالے سے اہم تھی۔ دو دیگر مقدمات میں فرانس اور سوئٹرز لینڈ میں ملوث تھے۔ آصف زرداری کے خلاف سب سے بڑا الزام کرپشن کا تھا۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ بے شمار دولت جمع کی اور اپنے اثاثوں کو بیرون ملک منتقل کر دیا۔ ”ھذا من فضل ربی“ کی قیمت عموماََ ایک ارب ڈالر تک بتائی جاتی ہے۔
عبدالحفیظ پیرزادہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ”کرپشن کے جو الزامات پیپلز پارٹی اور لیڈر شپ پر آئے ہیں، اگر میرے اوپر ہوتے میں ڈوب مرتا“ کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے زوال کی ایک بڑی وجہ اس کی حکومت کی وسیع پیمانے پر بدعنوانیاں بھی تھیں۔ پیپلز پارٹی اپنے مقاصد کی تکمیل میں ناکام رہی اس لیے زوال پذیر ہو گئی۔ بے نظیر بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی کو قیادت کا فقدان بھی رہا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری میں ابھی صلاحیت نہیں۔ طویل لوڈ شیڈنگ بھی پیپلز پارٹی کے زوال کا اہم سبب ہے۔
لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ تو ابھی تک مسلم لیگ (ن) نے بھی حل نہیں کیا۔ فی الحال دعوے کیے جا رہے ہیں۔ کول پاور پراجیکٹ کے افتتاح کیے جا رہے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف نے برسراقتدار آنے سے قبل اعلان کیا تھا کہ اقتدار میں آ کر دو سال میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کر دیں گے۔ دو سال بعد افتتاح ہو رہے ہیں۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ 2017ءیا 2018ءتک لوڈ شیڈنگ ختم کر دیں گے۔ یہ الیکشن کا سال ہو گا۔ اس لیے خیال ہے کہ یہ دعوے الیکشن سٹنٹ ہے۔
رانا احتشام ربانی سینئر سیاست دان اور دانشور ہیں۔ وہ امن اور خوش حالی کی باتیں کرتے اور لکھتے ہیں۔ وہ انسانوں کے درمیان محبت کا پیغام دیتے ہیں۔ یہی صوفیاءکا مسلک رہا ہے۔ حال ہی میں رانا احتشام ربانی کی کتاب ”امن، خوش حالی کے راستے“ میں بھی امن اور محبت کا پیغام ہے۔ رانا صاحب کا کہنا ہے کہ عمران خان ایشوز کی بات کرتا ہے۔ نعرے لگوانے کے لیے جذباتی، خوش کن وعدے نہیں کرتا۔ بڑی پارٹیاں برسراقتدار رہنے کے باوجود عوام کے مسائل حل نہیں کر سکیں۔ حبیب جالب کے الفاظ میں: ۔
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
اپنا حلقہ ہے حلقہ زنجیر
اور حلقے ہیں سب امیروں کے

مزیدخبریں