”اللہ ہمارا کام کیوں نہیں کریگا“

ہمارا یہ کہنا کہ دور موجود میں سینکڑوں ممالک کی صف میں اگر کوئی ریاست فلاحی مملکت کا درجہ رکھتی ہے تو وہ یقیناً رہبر انسانیت یا ان کے تربیت یافتہ جانثاروں کی دی ہوئی طرز حکومت جو جمہوریت کے قریب ترین تھی جہاں اجڈ اور گنوار بدو بھی تمام تر اختیارات کے مالک حکمران کا بازو پکڑ کر ان کے لباس کے بارے میں جوابدہ بنا دیتا تھا۔

اس بات سے کوئی کیونکر منکر ہو سکتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے نظام حکومت میں پارلیمان کا قیام عمل میں آیا، عام رعایا کو انتظامی امور میں مداخلت کا حق حاصل تھا، اضلاع کے حاکم رعایا کی مرضی اور بعض اوقات انتخاب سے مقرر کئے جاتے، حاکم کو عام آدمی کے برابر حقوق حاصل تھے اور کسی قسم کا استثنیٰ حاصل نہیں تھا، ہر شخص کو نکتہ چینی تنقید اور محاسبہ حاکم کا حق تھا ایک دفعہ خطبے کے دوران حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ اگر میں صحیح راہ پر نہ چلوں تو تم میرا کیا کر لو گے ایک شخص اٹھا اور تلوار نکال لی اور کہا عمرؓیاد رکھو، میں تمہیں اس تلوار سے سیدھا کردوں گا، اس پر عمرؓ نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ایسے لوگ موجود ہیں چونکہ ان کا اقتدارمشرق سے مغرب تک پھیلا ہوا ہے جس کی نظیر نہ پہلے ملتی ہے نہ آج کہیں نظر آتی ہے۔ انہوں نے الگ صوبے بنا کر گورنر (والی) سیکرٹری (کاتب اکاﺅنٹ جنرل، ناظم مالیات مقرر کئے۔) حضرت عمرؓ نے پورے عرب میں پہلی دفعہ پولیس کا محکمہ قائم کیا ان کے فرائض میں سڑکوں پر مکان نہ بننے دینا، جانوروں پر ظلم کو روکنا، شراب کی بندش وغیرہ شامل تھا، اس کا نام شرطتہ رکھا گیا، عرب میں پولیس والے کو اب بھی شرطہ کہا جاتا ہے۔
ایک گورنر کے بیٹے کو جس نے کسی غریب کے بیٹے کو کوڑے سے مارا تھا اپنے سامنے کوڑ ے مروائے اور تاریخی جملہ کہا۔ ان کی ماﺅں نے اپنے بیٹوں کو آزاد جنا تھا تم نے کب سے انہیں غلام بنا لیا۔ اس کے علاوہ حضرت عمر فاروقؓ نے پہلی مرتبہ ٹکسالوں میں چاندی کے سکے ڈھلوا کر بنوانے شروع کئے، آپؓ نے پہلی مرتبہ صوبوں کے بیت المال کیلئے وسیع عمارات بنوائیں، انتہائی ایماندار، دیانتدار افسر مقرر کئے اور زکوة، مال غنیمت، جزیہ، خراج، عشر (پیداوار کا دسواں حصہ) وقف کے ذرائع آمدنی، عشور تجارتی ٹیکس سے جمع کر کے وظائف محتاج اور نادار افراد، رفاح عام کے کاموں، قیدیوں کی کفالت، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر متفرق دینی اور ملکی ضروریات پر خرچ کرنے کا باقاعدہ شاندار نظام قائم کیا کہ ملک بھر میں مصر سے خراسان اور آذر بائیجان تک کوئی زکوة لینے والا ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا تھا اور غریب بھی اپنے پاﺅں پر کھڑے ہو گئے۔
ہم چرچل کی باتوں کو تو دہراتے رہے کہ جنگ عظیم کی تباہی کے بعد اس نے کہا تھا کہ میرے ملک میں اگر نظام عدل وانصاف اگر قائم ہے تو فکر کی کوئی بات نہیں ہم پھر اپنے پاﺅں پر کھڑے ہو جائیں گے، مگر حضرت عمر فاروقؓ کے عدل کو بھول جاتے ہیں، جو رائج کر کے وہ طویل ترین ملکوں کو ایک کر کے وہ طویل عرصے تک حکمران رہے اور آئین وقانون پر قاضیوں (ججوں) کو ایک فرمان لکھ کر ہدایت کی ”مقدمات میں اول تو قرآن مجید کے مطابق فیصلہ کرو، اگر قرآن میں وہ صورت موجود نہ ہو تو حدیث سے رجوع کرو، اگر اس میں بھی نہ ملے تو اجماع سے ورنہ اجتہاد سے کام لو“ قاضیوں کے انتخاب میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے وہ امیر ترین اور انتہائی عالم فاضل اور تقویٰ والے بزرگ کو قاضی لگاتے تاکہ رشوت کی جانب مائل نہ ہو، وہ غریب آدمی کو قاضی مقرر نہ کرتے کہ کہیں وہ خاندانی پس منظر کی بنا پر رشوت لینا نہ شروع کردے، راقم کو ایک ذاتی تجربہ ہے،
میں نے ایک بلڈنگ خریدی اور لاکھوں روپے بیعانہ ادا کردیا مگر فروخت کنندہ صاحب حیثیت تھا، اس نے بیعانہ لینے کے باوجود جگہ کسی اور کو بھی فروخت کردی اور تقریباً پندرہ سال سے فیصلے کیلئے کسی عمرؓ جیسے کا منتظر ہوں۔ جو عدالت میں بھی پیش ہو جاتا ہو اور جج کو تعظیم کرنے کی بنا پر عہدے سے فارغ کردے۔
حضرت عمرؓ نے وکیلوں کی بجائے محکمہ افتاءقائم کر کے قابل قانون دان وہاں ملازم رکھے جو سائلوں کو مسئلوں کا حل بتاتے تھے، حضرت عمرؓ نے پہلی دفعہ جیل خانے، محکمہ ڈاک اور مردم شماری کرائی اور سن ہجری کی ابتداءکے علاوہ پبلک ورکس کا محکمہ بنایا اور باقاعدہ فوجی چھاﺅنیاں بنا کر اور عہدے داروں کے مدارخ مقرر کر کے انتہائی معقول تنخواہ پر باقاعدہ محکمہ بنایا جس میں اس وقت کے جدید ہتھیاروں سے لیس دس لاکھ فوج تھی اور رضا کار اس کے علاوہ تھے راتوں کو گلیوں میں گھوم کر رعایا کا خیال رکھنا محض انہیں کا خاصہ تھا۔
غرضیکہ ہمارے پاس ایک کامیاب ترین حکمران کا دیا ہوا نظام حکومت کا ڈھانچہ موجود ہے، نجانے ہم کن مصلحتوں اور بھول بھلیوں کا شکار ہیں، سویڈن، ناروے، ڈنمارک، فن لینڈ، آئس لینڈ تو کسی مذہبی تفریق میں پڑے بغیر حضرت عمرؓ کے قوانین اپنا کر فلاحی مملکت کا درجہ اختیار کر گئے ہیں، بارہ سال تک تین عہدے رکھنے والا ابھی تک کہتا ہے، میرے دور میں زرمبادلہ کا جام بھر گیا تھا، جو سر پر جام چھلکنے نہ دے اس نے زرمبادلہ کو بھی چھلکنے نہیں دیا اور رعایا پر پیسہ خرچ نہیں کیا، قارئین حضرت عمرؓ کے دور میں شام کے وقت بیت المال (زرمبادلہ) والی جگہ پر جھاڑو پھیر دیا جاتا تھا اور یہی توکل کی انتہا ہے اور پیسہ عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کیا جاتا تھا، کاش ہم عوام کیلئے بنیں تو اپنے اقتدار کیلئے ہی(عمر لاز) کو اپنے ملک میں نفاذ کرا سکیں (عمرلاز) کی موجودگی میں ہمیں اور کیا چاہے، یہی غلامی رسول کا تقاضا ہے پھر حکمران دریائے نیل کو بھی حکم دے سکتے کہ جب ہم اللہ کے کام کرتے ہیں تو اللہ ہمارا کام کیوں نہیں کرے گا ....!!!
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن