1952ءمیں بھارت کے پہلے عام انتخابات کے موقع پر جواہر لال نہرو ملک کے مختلف بااختیار اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر کے بارے میں” متفکر “تھے۔ نہرونے کہا تھا ”کہ اگر بھارت کو واقعی ایک سیکولر، مستحکم اور مضبوط ملک بنانا ہے تو اسے اپنی اقلیتوں سے مکمل انصاف سے کام لینا ہوگا“لیکن بھارت کے ” دیوہیکل سرکاری“ ڈھانچے سے منسلک اہلکاروں میں صرف پانچ فیصد مسلمان ہیں۔ سرکاری شعبوں یا نوکر شاہی میں مسلمانوں کی تعداد بہت ”کم “ہے۔ بھارت کی بااختیار نوکر شاہی یا سول سروس میں مسلمانوں کی تعداد تین فیصد، وزارتِ خارجہ میں ایک اعشاریہ آٹھ فیصد اور پولیس کے محکمے میں چار فیصد ہے۔ ملک کی عدلیہ میں کام کرنیوالوں میں سات اعشاریہ آٹھ فیصد لوگ مسلمان ہیں۔بھارتیوں کے ناروا سلوک کے باعث پانچ سے چودہ سال کی عمر کے مسلمانوں بچوں کی کل تعداد کے تقریباً ایک چوتھائی کو کبھی سکول جانا نصیب نہیں ہوتا ۔مسلمانوں میں غربت کا یہ” عالم “ہے کہ 31فیصد مسلمان” خطِ غربت“ سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، مسلمانوں کے ان گنت معاشی اور معاشرتی مسائل ا±نکی معاشرے میں شناخت، تحفظ اور عدم مساوات کی وجہ سے مزید پیچیدہ ہو گئے ہیں لیکن ےاد رہے کہ مسلمان بھارت میں اقلیت ہیں کوئی کرائے دار نہیں ۔بھارت میں مسلمانوں کی پسماندگی ریاست کی صریحاً نااہلی اور ناانصافی ہے جسکی وجہ سے مسلمانوں کو تعلیم، صحت اور سرکاری نوکریوں میں ان کا جائز حق حاصل نہیں ہو سکا۔حکومت کے اس رویے کے باعث غریب اور پسماندہ طبقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور غریب اور پسماندہ طبقوں میں مسلمانوں کی تعداد نسباتاً زیادہ ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کو ملیچھ، بھارت ماتا کے ٹکڑے کرنیوالے اور” دہشت گرد“ کہا جاتا ہے۔ ان پر تعلیم، تجارت اور سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند ہیں۔ تعلیم سے روزگار تک ہر شعبے میں مسلمانوں کی اوسط ملک کے کسی بھی پسماندہ طبقے سے کم ہے۔ 2006ءمیں مسلمانوں کیخلاف دہشتگردی کی ایک نئی قسم سامنے آئی۔ ہندو دہشتگرد تنظیمیں مسلمانوں کی عبادت گاہوں اور مقدس مقامات کو نشانہ بناتیں اور بعد میں بھارتی حکومت ان بم دھماکوں کا الزام مسلمانوں پر ہی عائد کر کے ایک طرف تو ان کو پوری دنیا میں بدنام کرتی اور دوسری طرف ان دھماکوں کے الزام میں مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔ احمد آباد شہر میں فسادات پھوٹنے کے بعدمسلمانوں کی املاک تباہ اور انھیں قتل کیا گیا۔ سیکولر بھارت میں68سال گزرنے کے بعد بھی زندگی کے ہر شعبہ میں مسلمانوں کو انکے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔بھارت کی 68سالہ تاریخ میں ملک کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کیخلاف تقریباً50 ہزار فسادات کروائے گئے۔ ایسے فساد بھی رونما ہوئے جسے تاریخ ہرگز بھلا نہیں سکتی۔ مراد آباد‘ ہاشم پورہ‘ ملیانہ‘ روڑکیلا‘ جمشید پور‘ بھیونڈی‘ ممبئی‘ اجمیر‘ احمد آباد کے فسادات رونما ہوئے۔ مسلمانوں پرہندو فرقہ پرستوں کے ظلم و بربریت کے بعد فرقہ پرست پولیس نے مسلمانوں کو قطاروں میں کھڑا کرکے گولیاں ماریں۔ ملک بھر میں فسادات کے بعد تقریباً 45 تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیئے گئے لیکن تمام انکوائری کمیشنوں کی رپورٹ کو” کوڑے دان“ کی نذر کردیا گیا۔ ممبئی کے فساد کے بعد جسٹس سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ میں واضح کیا گیا تھاکہ 31 پولیس عہدیدار قتل اور لوٹ مار میں ملو ث تھے لیکن انکے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ مہاراشٹرا کے فسادات میں پولیس بھی شامل تھی۔ مسلمانوں کی معیشت کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ انکی صنعتوں اور تجارتوں کو تباہ و برباد کیا گیا۔ ممبئی میں مسلم بہنوں کی عصمت ریزی کی گئی اس پرجب انہوں نے احتجاج کیا تو ان کے سروں اور سینوں پر گولیاں داغی گئیں اور انہیں ٹاڈا کے تحت جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ انسانی حقوق کے علمبردار جہاں دہلی کی عصمت ریزی کے واقعہ پر سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور ملک کے مختلف مقامات پر موم بتیوں کے ساتھ مظاہرے کرتے ہیں وہیں یہ لوگ احمد آباد‘ ممبئی‘ مظفر نگر‘ کشمیر کی سینکڑوں مسلم خواتین کی عصمت ریزی کے واقعات پر کوئی آواز نہیں اٹھاتے۔آج بھی گجرات کی سیاست میں ایک بھی مسلم رکن اسمبلی نہیں ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کی آباد ی چھ فیصد ہے لیکن انکی نمائندگی کرنےوالا ایک بھی مسلم نمائندہ نہیں ہے۔ہندوستان کی آبادی میں ہر 5 واں شخص مسلمان ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی لگ بھگ 25 کروڑ ہے اسکے باوجود مسلمانوں کیساتھ ناانصافی کیوں ہے؟ بات صرف بھارت تک محدود نہیں ہے بلکہ بھارت کی قابض فوج 68 برسوں سے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو ان کے حق خود ارادیت دینے کے بجائے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے، مقبوضہ وادی میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں اب تک لاکھوں کشمیری شہید اورزخمی ہوچکے،آزادی کی حالیہ لہر میںنوجوانوں نے قربانیاں دیکر واضح کر دیا ہے کہ وہ آزادی لےکر رہیں گے لیکن قابض فوج بچوں اور جوانوں کے خوبصورت چہروں کو” چھروں “ سے داغدار کر رہی ہے ۔ستم ظریفی تو یہ ہے کہ عالمی ادارے اس ظلم وجبر پر آنکھیں بند کرکے سوئے ہوئے ہیں حالانکہ خود اقوام متحدہ نے کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کا وعدہ کررکھا ہے‘ لیکن نجانے یہ وعدہ کب وفا ہوگا؟گزشہ ماہ کی 8 تاریخ کو بھارتی فوج نے بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حریت پسند نوجوان برہان وانی کو شہید کیا۔ برہان وانی کی شہادت کی خبر سنتے ہی لاکھوں کشمیری سڑکوں پر نکل آئے جس پر بھارتی فوج نے روایتی انداز میں ان پر ظلم و تشدد کا بازار گرم کردیا لیکن یہ احتجاج رکنے کے بجائے مزید بڑھتا چلا گیا ۔گزشتہ 25 دنوں میں بھارتی فوج کی فائرنگ اور شیلنگ سے 74 کشمیری جام شہادت نوش کرچکے ہیں، اسکے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں کشمیری زخمی ہیں جن میں سینکڑوں ایسے ہیں جنہیں بھارتی بندوقوں نے بصارت سے محروم کردیا ہے۔وادی میں موجود بھارت کے سیکیورٹی اداروں کو براہ راست مرکزی حکومت کو شہہ حاصل ہے اور ان میں سر فہرست بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ ہیں۔ یہ وہی راج ناتھ سنگھ ہیں جو بابری مسجد کی شہادت میں براہ راست ملوث ہیں۔راج ناتھ سنگھ کی پاکستان آمد پر ہزاروں افراد نے مظاہرے کر کے اس سے اپنی نفرت کا اظہار کیا ہے ۔کشمیر کے عوام خوراک، ادویات اور دیگر ضروریات زندگی ناپید ہونے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں لیکن قابض بھارتی سرکار خصوصاً راج ناتھ سنگھ کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی اور یہی راج ناتھ سنگھ سارک کانفرنس کے اجلاس میں شرکت کیلئے اسلام آباد پہنچے ‘ لیکن وہ اپنے ہی پاکستانی ہم منصب سے ملنے سے کترا رہے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اگر ملاقات ہوئی تو انہیں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال، کلبھوشن سنگھ یادیو اور اس جیسے ”را“ کے دیگر ایجنٹوں کے بارے میں جواب دینا پڑے گا، انہیں اس بات کا بھی جواب دینا ہوگا کہ بھارت پاکستان میں دخل اندازی کیوں کررہا ہے؟ بے شک راج ناتھ سنگھ آج ان باتوں سے پہلو تہی کرنے میں کامیاب ہوجائیں لیکن پاکستانی ان سے پوچھنے کا حق ضرور رکھتے ہیں کہ ”بھارتیو! جواب دو“۔