”پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ“

گرمیاں شروع ہوتے ہی پانامہ پیپرز نے اقوام عالم کی سیاست میں ایک بھونچال طاری کر دیا۔ ایسا طوفان گرم کیا کہ جس کی زد میں پاکستان بھی آ گیا۔

میرے اس کالم میں پانامہ لیکس کا تذکرہ یہ نہ سمجھیں کہ کسی خاص شخص یا پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنانے کیلئے ہے۔ چونکہ یہ بالکل تازہ ترین واقعہ ہے اور جس کی وجہ سے بہت سے سربراہان مملکت کو اپنے عہدے چھوڑنے پڑے اور ہمارے وزیراعظم کے خاندان کے نام اس میں شامل ہیں اس لئے اس کا ذکر خیر کچھ بن ہی جاتا ہے۔ وگرنہ 175 ممالک میں 117 نمبر پر کرپٹ ملک گردانے جانے میں صرف ایک خاندان کا ہاتھ نہیں ہو سکتا اور پھر کرپشن صرف پیسے کی نہیں سب سے زیادہ تاسف کی بات ہے ذہنی طور پر جو قومیں مفلوج اور کرپٹ ہو جائیں۔جب سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں، اچھائی اور برائی کی تمیز، معاشرے میں مل جل کر رہنے کے اصول لوگوں میں نہ رہیں، رواداری، مساوات جیسے الفاظ کانوں کیلئے اجنبی بن جائیں، نیکی، مدد، محنت، شرافت یہ باتیں کرنیوالوں کو جہاں بیوقوف سمجھا جائے اور مکاری کو سمجھداری۔ لوٹ کھسوٹ سے پیسہ کمانے والوں کو عقل کل مان لیا جائے اور انکی مثالیں دی جائیں تو سمجھ لیں یہ قوم ذہنی پستی کا شکار ہو چکی ہے۔جب عرب کے زمانہ جاہلیت کی طرح لڑکیوں کو مارا جانے لگے، جہاںمذہب کے نام پر قتل ہوں، مسلمان مسلمان کا فرقے کی بنا پر گلا کاٹنے پر مصر ہو تو وہ معاشرہ کرپٹ نہ کہلائے تو کیا کہلائے گا۔جس وقت انسانوں کو پرکھنے کا معیار اخلاق و کردار سے ہٹ کر ظاہری بناوٹ سے کیا جائے اور بڑے پن سے مراد دولت مند ہونا ہو تو یہ سب عناصر مل کر انسان کی شخصیت اس کی سوچ کو تباہ کر دیتے ہیں اور ایسے انسانوں پر مشتمل سوسائٹی معاشی اور معاشرتی دونوں لحاظ سے کرپشن کا شکار ہو جاتی ہیں۔اپنے آس پاس نظر دوڑا کر دیکھیں چھوٹے بچوں کا اغواءعروج پر ہے۔ جھوٹی اکڑ اور انا کے نام پر گھر کی بہو بیٹیوں کو آئے روز قتل کیا جارہا ہے۔ کہیں تو بڑے بڑے پل اور ٹرینیں چل رہی ہیں اور وہیں پر انکے آس پاس ہونیوالے کام کی وجہ سے مزدور مر رہے ہیں۔ جہاں مدرسوں کی اصلاحات کی بات کی جا رہی ہے وہیں ان کو کروڑوں روپے کے فنڈز بھی دیئے جا رہے ہیں۔ کشمیریوں کیساتھ یکجہتی کی ریلیاں نکالی جا رہی ہیں ان کے اوپر ظلم کی مذمت کی جا رہی ہے لیکن مودی سرکاری سے دوستانہ بھی ہے۔ ہمارے لیڈر اپنے علاج کیلئے بیرون ملک کے ہسپتالوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ کبھی یہاں سرکاری ہسپتال میں نظر دوڑا کر دیکھیں مریضوں کیلئے بستر نہیں‘ ڈرپ لگی ہے تو انکے اٹینڈنٹ اس کو پکڑے کھڑے ہیں اور سکولوں کے نام پر ”بھوت سکول“ جہاں عمارتوں میں مویشی بندھے نظر آتے ہیں۔ اگر علاقے کے لوگ مالی طورپر مستحکم ہوں تو وہ خود ہی ٹیچر کو تنخواہ دیکر بچوں کو پڑھانے پر قائل کرتے ہیں۔ایک فلاحی مملکت کا وجود کیسے سامنے آئےگا؟ کرپشن ایک لعنت ہے خاص طورپر مسلمانوں میں۔ خاص کر نام نہاد پڑھے لکھے اور ذہین۔ بدقسمتی سے یہ لوگ خودغرض ہیں۔ اخلاقی اور ذہنی طورپر کرپٹ ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک عام بیماری ہے‘ لیکن مسلمانوں کے ایک خاص طبقے میں زیادہ بڑھ رہی ہے۔قائداعظم محمد علی جناح .... 6 مئی 1945ئ
”آپ لوگ بلاشبہ میری بات سے اتفاق کریں گے کہ حکومت کا پہلا کام امن و امان ہے تاکہ لوگوں کی زندگی‘ جائیداد اور مذہبی عقائد کی حفاظت کی جا سکے۔ اگر ہم پاکستان کو ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنانا چاہتے ہیں تو ہم کو عوام کی خاص طورپر عام لوگ اور غریبوں کی نگہداشت کرنی ہوگی۔“ قائداعظم محمد علی جناح.... 11 اگست 1947ئ۔ ”تعلیم کیلئے پالیسی بنانا اور پروگرام جوکہ ہمارے لوگوں کی تاریخ اور ثقافت کے مطابق ہو جوکہ جدید حالات کو مدنظر اور دنیا کی ترقی کو دیکھ کر بنایا جائے۔“ .... ”تعلیم سے ہم کو اپنی آنے والی نسلوں کا کردار بنانا ہے جوکہ عزت‘ سالمیت اور ملک و قوم کی بے لوث خدمت‘ ذمہ داری کا احساس پر مبنی ہو۔“
قائداعظم محمد علی جناح.... 27 نومبر 1947ئ
”اس نظام کی اصلاح کیلئے‘ اس ملک کی بقاءکیلئے ہم سب کو اپنی ذات میں اپنا احتساب کرنا ہوگا.... بلاتفریق۔“ پاکستان زندہ باد

ای پیپر دی نیشن