مغوی بچوں کا صرف ایک ہی جرم ہے کہ وہ پاکستان میں پیدا ہوئے ،غریب گھرانوں میں انہوں نے آنکھ کھولی تو پھر انکے سارے انسانی حقوق خود بخود ختم ہو گئے۔ اب میڈیا شور مچائے یا عدالت سوموٹو ایکشن لے۔ والدین میڈیا پر اور ججز کے سامنے جتنی مرضی آہ و زاری کر لیں کچھ نہیں بنے گا اس لیے نہیں کہ انہیں کسی طاقتور گروہ نے غائب کیا ہے بلکہ اسکی وجہ انکا غریب گھرانوں میں جنم لینا ہے۔ دکھی ماﺅں کی فریادیں سن کر قانون نافذ کرنےوالے ادارے ان بچوں کو ظالموں کے چنگل سے آزاد کروانے کیلئے سرچ آپریشن نہیں کرینگے، بے شک انہیں خودکش بمبار بنا کر بازاروں پارکوں‘ جلسوں اور جلوسوں میں بھیج دیا جائے یا سرحد پار کسی اسلامی ملک کے ریگستانوں میں اونٹوں کی ریسوں کیلئے استعمال کیا جائے۔ کیوں؟ کیونکہ ان کا جرم یہ ہے کہ وہ غریبوں کے بچے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے 652 مغوی بچوں پر چپ سادھ رکھی ہے‘ وہ ان غریب بچوں کی بازیابی کی بات کرکے اپنے فنڈز بند کروانا نہیں چاہتے۔ اگر کسی این جی اوز نے مغوی بچوں کے حق میں مظاہرہ کیا تو بادشاہ سلامت انہیں فوراً صوبہ بدر کر دینگے بلکہ وفاقی حکمرانوں سے تعلقات کا فائدہ اٹھا کر انہیں ملک بدر بھی کیا جا سکتا ہے۔گزشتہ روز سینئر سول جج راولا کوٹ پولیس کے عدم تعاون پر کمرہ عدالت میں دھاڑیں ما رکر رو پڑے۔ عزت مآب سول جج کا بحیثیت ایک والد کے آپکا رونا بجا ہے۔ جب آپ جیسا اثر و رسوخ والا والد اپنے بچے کو بازیاب نہیں کروا سکا تو غریبوں کا کون پرسان حال ہو گا؟ مغوی بچوں کے خانہ ولدیت میں کسی سابق وزیر اعظم کا نام ہے نہ ہی ان میں سے کوئی سابق گورنر کا بیٹا ہے۔ پولیس آخر کس لیے تعاون کرے؟ دکھی ماﺅں کی فریادیں سن کر رونے والے پولیس ملازم کسی اور ملک میں ہونگے، یہاں تو صرف انہیں تحفظ فراہم کیا جائےگا جن کا سیاست میں سر اونچا ہو گا۔ انارکلی بازار سے لاپتہ ہونیوالی تین سالہ جنت حیات کا والد اگر سرکاری محکمے میں بڑا افسر ہوتا تو اب تک لاہور پولیس نے بچی کو برآمد کر لیا ہوتا۔ چاروں صوبائی اسمبلیوں نے قرار داد مذمت پاس کر لی ہوتی۔ صدر پاکستان وزیر اعظم اور آرمی چیف سے لیکر چاروں وزراءاعلیٰ چاروں گورنرز اور ملک بھر کی مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے مغوی کے والد محترم کو فون کرکے جلد بازیابی کی تسلی دیکر ان کا بوجھ ہلکا کر دیا ہوتا ، لیکن کیا کریں مغوی بچے ہمارے حکمرانوں کے نزدیک کیڑے مکوڑوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ خواہشوں کے بندوں، تمناﺅں کے جنگلوں میں بھٹکنے والے افسروں کے آزار میں مبتلا عیش و عشرت کے دلدادوں کے ساتھ کیڑے مکوڑوں کا مقابلہ کرنے کی جسارت کون کر سکتا ہے؟ لالچ میں لت پت، نام و نمود کے صحرانوں میں سرگرداں دنیا کی چکا چوند کے اسیروں، عہدہ و منصب کے پجاریوں کے بچوں کو اس ملک میں الگ مقام حاصل ہے جبکہ غریب کے بچے کیلئے الگ قانون ہے۔
652 مغوی بچوں کے والدین ان بے ثمر راہوں پر بھٹک کر عمر تمام کردینگے لیکن انہیں کوئی بھی نہیں بتائے گا کہ انکے لخت جگروں کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ پیاسی زمین کی طرح انکے دلوں میں اس نظام سے نفرت کی دراڑیںپڑیں گی، وہ حکمرانوں کیخلاف ایسی سنگلاخ چٹانیں بن جائینگے، جن سے روز نفرت کا لاوا پھوٹے گا، عمر بھر انہیں گھن چاٹتا رہے گا۔ حکمران سیاستدان اور امراءاپنے اور غریبوں کے مابین نفرت کی دیوار برلن تعمیر کرنے سے گریز کریں۔ 155 کلومیٹر لمبی اور 12فٹ اونچی دیوار برلن کا خاتمہ ہو گیا تھا لیکن عوامی نفرت کی بنی دیوار کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ آسودہ حالی انسانی جبلت کا تقاضا ہے کہ ہر انسان ترقی و خوشحالی کا دلدادہ ہوتا ہے لیکن جب انسان اپنے ہی ملک میں تعلیم رہن سہن، صحت اور حفاظتی قوانین میں فرق دیکھتا ہے تو اس کا خون کھول اٹھتا ہے تو پھر انتقام جنم لیتا ہے، حکمران بیشک مہنگائی کرکے غریبوں کا استحصال کر لیں لیکن انہیں اولاد کا غم مت دیں ،انہیں دیوار سے مت لگائیں،سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق ”وکھی“ سے بولے ہیں ،کہتے ہیں بچوں کا اغواءکوئی بڑی بات نہیں ہے ،خدا نخواستہ اگر ان کا بیٹا اغواءہوتا تو جناب پر کیا گزرتی ؟
ایچی سن کالج کے پرنسپل ڈاکٹر آغا غضنفر کو اپنے عہدے سے صرف اس لئے ہاتھ دھونا پڑے کہ ایاز صا دق ، میاں منشاءکے پوتوں کو میرٹ سے ہٹ کر داخلہ نہ دینے سے انکار کردیا تھا۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے پوتے ایان صادق، میاں منشا کے پوتے حسن مصطفی اور سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے پوتے میران مصطفےٰ، ڈاکٹر صفدر عباسی کے پوتے سمیت بزنس مین یاور بیدارجیسی اہم سیاسی و کاروباری شخصیات کے بچوں کو میرٹ سے ہٹ کر کالج میں داخلہ نہیں دیا گیا تھا تو ان لوگوں نے ایک ٹیچر کو عدالتوں کے چکروں میں ڈال دیا جبکہ یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔اگر انھوں نے سینے میں دل کی جگہ پتھر رکھا ہوا ہے تو درست‘ورنہ انکے اس بیان پہ یوں ہی کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے کسی بے رحم ، سفاک اور ظالم وجابر حکمراں کے ضمیر کی طرح اپنا ضمیر بیچ دیا ہے ،انکی فالج زدہ سوچ نے ہزاروں ماﺅں کے ارمانوں کا قتل کیا ہے ، کاش ان مردہ دلوں میں محبت کا شگوفہ بھی پھوٹتا۔انکے ہونٹوں سے مذمت کی دو لائنیںجاری ہوتیں۔کاش وہ اپنی بد صورت سوچوں کو گفتگوکے حسن سے چھپا لیتے۔وہ آستینوں میں چھپی وحشت کو مسکراہٹ میں چھپا نے کا گُر سیکھیں ۔اسی میں انکی سیاسی بقا ہے ،تھر میں سینکڑوں بچوں کو ابدی نیند سلانے پر خاموش رہنے والی سندھ کی شہزادی بختاور زرداری نے ”ہمارے بچے واپس لاﺅ “ کے عنوان سے سوشل میڈیا پر مہم شروع کررکھی ہے لیکن بختاور کو زرداری ہاﺅس کی اونچی دیواروں سے تھر کی ماﺅں کی آواز کون سنائے گا ؟ اس شہزادی کو کیسے پتہ چلے گا کہ بھوک کی شدت اور دودھ کی کمی سے ابدی نیند سونے والے بچوں کاذمہ دار کون ہے ؟ جب تھر میں موت کا رقص جاری تھا تب محترمہ کہاں سوئی ہوئی تھیں ؟خدا را !اب مغویوں کے لواحقین کے زخموں پر نمک چھڑکنے سے اجتناب کریں ، تاریخ کے ظالم ترین حکمرانوں میں ایک قوم کا ہیرودوسری کا دشمن ہوسکتا ہے، لیکن تاریخ میں کئی ایسے حکمران بھی گزرے ہیںجنہیں ہیرو کے درجے پر قبول کرنے والے اپنی قوم میں بھی شاید ہی چند لوگ ہوں۔یہی مقام گڑھی خدا بخش کے مجاوروں کا ہے ، اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے حکمران تمام حدیں پار کرلیتے تو بھی عوام برداشت کر لیتے لیکن اگر عوام کے گھروں کو اجاڑا جائے انکے لخت جگروں کے اغواءپر خاموشی اختیار کر لی جائے تو پھر عوامی غضب سے انھیں کوئی نہیں بچا سکتا ،جس کی تازہ جھلک گذشتہ روز ہونے والے پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاج کی ہے ، حکمرانوں نے تو چپ سادھ ہی رکھی ہے لیکن اپوزیشن کی غفلت پر بھی سوالیہ نشان ہے ،سوالیہ ؟؟؟کیونکہ ان بچوں کا جرم غریب ہونا ہے،