دنیا میں ملوکیت ، خلافت، جمہوریت، آمریت وغیرہ، ہر طرز حکمرانی کی اپنی اپنی تاریخ ہے۔ان میں سب سے زیادہ بحث جمہوریت پر رہی۔ایک تو ہر طریقے میں جمہور کی کچھ نہ کچھ مرضی اور مطمئن ہونے کا عنصر اثر انداز رہا، دوسرا حالات سے اسکی ہیئت بھی بدلتی رہی۔ وطن عزیز میں اسطرح کے حالات رہے کہ ہم نے پہلے 55سال میں ہر شکل کو آزما ڈالامگر کچھ قابل قدر ہاتھ نہ آیا۔2002ء سے ہم نے کچھ ایسی تھیوریاں ایجاد کیں جو سقراط سے لیکر کارل مارکس تک تو کسی کی سمجھ میں نہیں آ سکتیں البتہ علم سیاسیات و فلسفہ کے موجودہ و مستقبل کے طالب علموں کیلئے بحث کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں۔
سب سے پہلے تو ہم نے نظریہ ضرورت کو ہزار بار دفن کرنے کے بعد بھی زندہ رکھا۔ پھر اسی سے ’’نظریہ مجبور جمہوریت‘‘نکال لیا۔ یعنی چار پانچ سال کسی آمر کے نو ر تنوں میں شامل ہو کر نواز شات ِ شاہی سے لطف اندوز ہونے کے بعد آخری مہینوں میں اپنی شمولیت اور وفاداریوں کو’’ مجبوری برائے احیائے جمہوریت‘‘ ظاہر کرنا ایک تسلیم شدہ نظریہ بن کر سامنے آگیا۔ دوسری تھیوری میں اسطرح کے سول ملٹری تعلقات کو جمہوریت کی اساس قرار دینا تھاجسکا عملی مظاہرہ کچھ یوں ہوتا رہا۔ ہر جگہ پر جنرلز جمہوریت کی تگ و دو کی بات کرتے نہ تھکتے جبکہ سیاستدان کسی کو وردی میں دس بار الیکشن جتوانے کے عزم کا اظہار کرتے رہے۔تیسری تھیوری یہ سامنے آئی کہ جمہوریت صرف عوام کے ذریعے سے اقتدار حاصل کرنے کا ہی نام ہے۔ بعد میں عوام کی اقتدار میں شمولیت (لوکل باڈیز )، آئین کیمطابق عوام کے حقوق کی ذمہ داری، عوام کی نمائندہ اپوزیشن اور پارلیمنٹ کی ضرورت ہی نہیں ہوتی ۔ آٹھ سال سے اسکا عملی مظاہرہ کر کے ثابت کر دیا گیا کہ جمہوریت کی مشہور تعریف میں گورنمنٹ ’’بائی دی پیپل‘‘اینڈ’’فاردی پیپل‘‘کے الفاظ غیر ضروری ہیں۔آجکل ایک اور نظریہ اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے اور وہ ہے ’’کرپشن میں متناسب نمائندگی‘‘۔ جسطرح سٹیک ہولڈر ز بہت زیادہ ہوں تو جمہوریت کو Stability دینے کیلئے متناسب نمائندگی کا طریقہ اپنایا جاتا ہے اسی طرح آجکل بڑی تعداد میں کرپشن کے وہ سٹیک ہولڈرز سامنے آ چکے ہیں۔ جنھوں نے جمہوریت بچانے کا فریضہ بھی اداکرنا ہے لہٰذااسی طرف عمل جاری ہے۔
پانامہ لیکس نے تھوڑی دیر کیلئے پوری دنیا میں ایک ہلچل سی مچادی ۔ جو لوگ اپنے لیڈرز کی طرف سے کرپشن کاسن کر حیران ہوئے وہ سڑکوں پر نکل آئے اور 24گھنٹے میں آئس لینڈ کا وزیر اعظم سگمندر فارغ ہو گیا۔ جہاں سیاسی پارٹیاں ذاتی نہیں جمہوری ہیں وہاں پر انہوں نے اپنے قائد سے فوری طور پر معاملہ کلیئر کرنے کا کہا اور کردکھایا جیسے وزیراعظم برطانیہ۔ جہاں ادارے مضبوط تھے جیسے روس اور چین ، انہوں نے اس پر ہر طرح کی بحث پر پابندی لگادی اور اندر ہی اندر کا روائی کر ڈالی۔ہمارے ہاں معاملہ بالکل مختلف تھا۔پہلی بات تو یہ کہ پانامہ لیکس میں جو انکشافات ہوئے ہمارے عوام اس سے کہیں زیادہ جانتے اور تسلیم کر چکے ہیں۔ کس بات پر حرکت میں آتے؟ دوسرا پارٹیاں ذاتی ہیں جو اپنے لیڈر سے پوچھنے کی جرأت ہی نہیں کر سکتیں بلکہ ایسے موقعے نمایاں لوگوں کو زیادہ وفاداریاں پیش کرنے کے کام آتے ہیں۔ تیسرا اداروں کی مضبوطی، تو وہ ایک عرصے سے سراب تھے، اب خواب بن چکے ہیں۔ ہمارے ہاں تحّرک صرف میڈیا اور سیاستدانوں میں پایا گیا۔ جن کی وجوہات اپنی اپنی تھیں۔
میڈیا کیلئے تو اسطرح کا مضمون نظر انداز کیا ہی نہیں جا سکتا مگر اسکی وسعت کب تک اور کہاں تک ہوگی اسکا تعین مختلف اطراف سے آنے والارد عمل کرتا ہے۔ہمارے ہاں ردّعمل کچھ اسطرح کا آیا کہ چھ سات ماہ سے پوری قوم اس میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ قانونی طور پر پانامہ لیکس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس سے کچھ نکالنا ہر قوم کی اندرونی طاقت پر منحصر ہے۔ پھر اس خالصتاً اندرونی کیس کی تمام بڑی شہادتیں بیرونی ہیں اور وہ ممالک ہمیں یہ شہادتیں فراہم کرنے کے پابند نہیں ہیں۔اب اسکو سیاسی پہلو سے دیکھتے ہیں۔ اپوزیشن نے احتجاج میں یکجا کھڑے ہوکر بھی دکھا دیا مگر معاملات TORپر بات چیت سے آگے نہ ایک انچ بڑھے ہیں نہ بڑھیں گے کیونکہ-:
ہوتی نہیں دعا قبول ترکِ عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں
ایک تو جتنے سیاستدان کھڑے تھے وہ یا ان کے نہایت قریبی لوگ اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔الا ماشااللّٰہ۔ دوسرا انہیں معلوم ہے کہ اگر حکومت ٹوٹ جاتی ہے تو وہ اس اکادکا سیٹوں کی موج سے بھی گئے۔ لہٰذا اس تمام شور کا مقصد اپنی اپنی پارٹی کو اگلے الیکشن کیلئے منظم کرنا ہے۔جہاں تک پانامہ لیکس والے کیسز کا تعلق ہے ان پر جلد ہی اسطرح کے TOR اور قوانین آجائینگے کہ ’’متناسب نمائندگی کی بنیاد ‘‘ پر کوئی کسی کے خلاف ایکشن نہیں لے سکے گا۔ میڈیا کی چمک اور پبلک کی دیرپا چھوٹی موٹی تفریح کیلئے ان قوائین میں Provisionsموجود رہیں گی۔
البتہ کرپشن کا ایک بہت بڑا شعبہ’ قرضوں کی معافی‘ خالصتاً اندرونی اور نسبتاً آسانی سے پکڑے جانے کے قابل ہے۔ جس پر کام کیا جا سکتا ہے۔ ویسے تو یہ بھی متناسب نمائندگی کی حد ود میں آتا ہے مگر اسکا سوسائٹی سے گہرا تعلق ہے بلکہ غر یبوں کے سینے پر مونگ دلنے کے مترادف ہے۔ جب کوئی غریب HBFCسے اپنے تین مرلہ گھر کیلئے حاصل کردہ قرضے کی اقساط ادا نہ کر سکنے کے باعث چند ہزار روپوں کے بد لے جائیداد ضبطی کا نوٹس پڑھتا ہے، اور اسی اخبار میں امیر کبیر لوگوں کو اربوں روپے کے قرضوں کے معاف کرنے کی خبر ہوتی ہے تو اسکے دل پر کیا گذرتی ہو گی۔کیا یہ احساس پورے معاشرے کو نہیں ہونا چاہیے۔یہ بات ہم سب پر روز روشن کی طرح واضح اور ریکارڈ پر ہے کہ آج تک بڑے بڑے قرضے صرف با اثر اور دولتمندوں کے معاف ہوئے ہیں۔ جو عموماً معاف کروانے کیلئے ہی اٹھائے گئے۔ اس ملی بھگت میں بہت سارے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ سیاسی، بینک و بیوروکریٹ کا حصّہ پہلے ہی دن نکال کر قرض لینے والا باقی رقم اصل پراجیکٹ کے علاوہ کہیں اور لگا لیتا ہے اور اسطرح خوب ترقی کرتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر غریب کی چھت کا معمولی سا قرضہ معاف نہیں کیا جا سکتا تو امراء کے قرضے معاف کرنا سنگین قومی جرم ہے۔ جس کا تدارک بھی ممکن ہے۔
1۔ قرضے معافی کے قوانین یکسر ختم کردینے چاہیں۔ اگر کوئی واقعی کسی عذاب میں پھنس گیا ہے جو اسکی باقی جائیداد کی سپورٹ سے بھی بڑا ہے تو اسکی ادائیگی کی اقساط کو ایک سال تک کیلئے معطل کیا جا سکتا ہے، معاف نہیں۔پھر یہ کیس ہر سال پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں لایا جائے جو باقی سب جانچ پڑتال کر کے اس ریلیف کا عرصہ بڑھا سکتی ہے۔2۔ جنھوں نے آج تک قرضے معاف کروائے ہیں انکی اور انکے خاندان کی اصلی جائیداد اور اصلی آمدنی جو انکے رہن سہن سے مطابقت رکھتی ہو، کا سروے کرواکرا نہیں قرضے واپس کرنے پر مجبور کیا جائے۔3۔ بینکوں سے لئے گئے قرضوں سے کسی طرح بھی حکومت کی لاتعلقی نہیں ہونی چاہیے ۔
پانامہ لیکس پر تمام سیاسی پارٹیوں کے درمیان ’’متناسب نمائندگی‘‘کی بنیاد پر سمجھوتہ ہو چکا سمجھیں۔ لہٰذا وقت ضائع کرنے کی بجائے قرضے معافی کو روکنے اور معاف شدہ قرضوں کی ریکوری پر زور دیا جائے۔
’’کرپشن میں متناسب نمائندگی‘‘
Aug 05, 2016