لاہور(خبرنگار) پنجاب حکومت نے بلدیاتی اداروں کی خصوصی نشستوں اور لارڈ میئر‘ میئرز‘ ڈپٹی میئرز کے عہدوں کے انتخابات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2013ء میں ترامیم کا فیصلہ واپس لے کر دور کردیا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے پنجاب حکومت ابھی تک جنرل مشرف کے بلدیاتی نظام کا خاتمہ کرکے 2013ء کے اپنے نئے بلدیاتی نظام کو نافذ کرنے میں مکمل ناکام ہے۔ پنجاب میں آج بھی تمام بلدیاتی ادارے ڈی سی او کے ماتحت ہیں وہی ناظم، وہی نائب ضلعی ناظم اور وہی ضلعی اسمبلی ہیں یہی اختیار ٹائونز اور تحصیلوں کے ایڈمنسٹریٹرز کو حاصل ہے جبکہ ہر ٹائون اور تحصیل کا ٹی او آر تمام یونین کونسلز کا ایڈمنسٹریٹر ہے۔ لہٰذا ابھی تک افسر شاہی 2001ء کے جنرل مشرف کے بلدیاتی نظام کے تحت موجودہ بلدیاتی ادارے چلا رہی ہے۔ اس کے باوجود میٹرو پولیٹن کارپوریشن، میونسپل کارپوریشن، دیہی ضلع کونسلیں بحال نہیں ہوئیں ان اداروں کی ’’بنیاد‘‘ چیئرمین، وائس چیئرمین اور کونسلروں نے ’’پرانے سسٹم‘‘ پر ’’قبضہ‘‘ کرکے ’’کام‘‘ شروع کردیا ہے۔ لاہور کی 150 یونین کونسلوں پر چیئرمین اور وائس چیئرمین باقاعدہ بیٹھتے، دفتر لگاتے اور فیصلے کررہے ہیں جبکہ باقی 122 چیئرمینوں اور وائس چیئرمینوں نے دفتر نہ ہونے پر گھر پر ہی دفتر بنا لئے ہیں اور انہیں ’’حکومتی یقین دہانی‘‘ کرائی گئی ہے انہیں اس ’’دفتر‘‘ کا کرایہ بھی ملے گا۔ پنجاب حکومت نے بلدیاتی اداروں کے قیام کیلئے ابھی تک تیاریاں نہیں کی ہیں۔ ان اداروں کی ابھی تک درحقیقت بنیاد ہی نہیں رکھی گئی۔ حکومت بیک وقت فوجی آمر جنرل مشرف اور اپنے جمہوری بلدیاتی نظام سے کام چلا رہی ہے جہاں جو مسئلہ ہو کسی بھی نظام سے حل نکال لیا جاتا ہے۔ حکومت نے بلدیاتی افسران کی تعیناتیوں کیلئے تو کچھ ہوم ورک کررکھا ہے مگر ضلعی انتظامیہ کا نیا سٹرکچر ابھی تک نہیں بنایا گیا۔ پنجاب حکومت نے نئے بلدیاتی نظام کیلئے اس سال بھی رقم نہیں مختص کی۔ ضلعی حکومت لاہور کے پاس ترقیاتی سکیم شروع کرنے کیلئے پیسہ نہیں ہے جبکہ حکومت نے اپنے چیئرمینوں اور وائس چیئرمینوں کو ’’خوش‘‘ کرنے کیلئے ان سے ترقیاتی سکیمیں لے لی ہیں۔