اسلام آباد میں بڑے اہتمام اور طویل انتظار کے بعد عالمی فیشن کے عین مطابق ایک Mall بنایا گیا ہے۔ لوگوں سے سنا ہے کہ وہ کھچا کھچ بھرا رہتا ہے۔ میں لیکن آج تک وہاں نہیں گیا۔ میرا وہاں نہ جانا اس لئے بھی عجیب محسوس ہوتا ہے کہ خریداری اور ونڈو شاپنگ کا شوقین نہ ہوتے ہوئے بھی مجھے ایک زمانے تک فلمیں دیکھنے کی تقریباََ بیماری لاحق تھی۔ اس مال میں Cinepax بھی ہے جو سنا ہے جدید آلات سے مزین ہے۔ وہاں فلم دیکھنے کا مزا دوبالا ہو جاتا ہے۔ فلم دیکھنا بھی مگر بہت عرصے سے میں نے چھوڑ رکھا ہے۔
فلموں کے بارے میں میری دلچسپی کو جانتے ہوئے میری بیوی کچھ ماہ پہلے بڑے شوق سے ایک DVD Player خرید کر لائی تھی۔ یہ اعلیٰ کوالٹی کا Player ہے۔ اس کے باوجود الماری کے جس خانے میں اسے میری بیوی نے بازار سے لا کر رکھا، کئی دنوں تک وہیں ڈبے میں بند پڑا رہا۔ میری کاہلی کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس نے ایک دن خود اسے Unpack کیا۔ LED سکرین کے ساتھ Connect کیا اور اس کا ریموٹ میری لکھنے والی میز پر رکھ دیا۔ اب مجھے صرف اس میں کوئی DVD ڈال کر فلم دیکھنا تھی۔یہ Player مگر اس حالت میں بھی کئی ہفتوں تک وہیں استعمال ہوئے بغیر پڑا رہا۔
اسے استعمال کرنے کی نوبت اگر آئی تو بالآخر اس وقت جب بھارتی اخبارات میں کشمیر کے تناظر میں بنی فلم ”حیدر“ کے چرچے ہوئے۔ اس فلم کو ہندو انتہاءپسندوں نے Ban کروانے کےلئے طویل عدالتی جنگ لڑی۔ فلم Ban تو نہ ہوئی مگر اس کے چند حصے سنسر نے دوبارہ دیکھ کر کاٹ دئیے۔ اس فلم کی وجہ سے اٹھے تنازعہ کے علاوہ ”حیدر“ سے میری دلچسپی کی وجہ بشارت پیر تھا۔ Curfewed Nights کے ذریعے اس نوجوان ناول نگار نے مقبوضہ کشمیر کی حقیقتوں کو انتہائی تخلیقی مگر سادہ زبان میں روز مرہّ زندگی سے لئے کرداروں کی بدولت بیان کردیا ہے۔ تلخ حقائق بیان کرتے ہوئے بشارت پیر ایک لمحے کو بھی جذباتی نہ ہوا۔ اس کا رویہ اپنے کشمیر کے دُکھ کو بیان کرنے کےلئے بظاہر ایسا محسوس ہوا جو ایک پیشہ ور ڈاکٹر کسی لاش کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے اپناتا ہے۔ ”حیدر“ کے ذریعے اس نے شیکسپیئر کے شہرہ آفاق کردار ”ہملٹ“ کو آج کے مقبوضہ کشمیر لا کر ایک نئے حوالے سے دیکھنا چاہا۔ پاکستان میں یہ فلم دکھانے کی جانے کس بنیاد پر اجازت نہ ملی۔ تجسس و شوق کے مارے میں ”حیدر“ کی DVD لانے پر مجبور ہو گیا اور اپنے لکھنے پڑھنے اور مہمانوں سے ملنے والے کمرے میں موجود DVD Player کو پہلی اور آخری بار استعمال کر بیٹھا۔
ٹی وی کےلئے میں بھی نام نہاد نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز کا ایک پروگرام ہوسٹ کرتا ہوں۔ اگرچہ خود بہت کم ٹی وی دیکھتا ہوں۔ اپنی اسی عادت کی وجہ سے مجھے ہرگز یہ علم نہیں ہوتا کہ ان دنوں مختلف چینلز پر کونسے پروگرام، ٹی وی ڈرامے یا دیگر نوعیت کے Shows بہت مقبول ہیں۔
بدھ کی شب مگر معلوم ہوا کہ ڈورے مین کے نام سے ان دنوں ہمارے کسی چینل پر کارٹون کہانیوں کا کوئی سلسلہ چل رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے پنجاب اسمبلی کے رکن ملک تیمور نے اسے بند کروانے کےلئے ایک قرارداد جمع کروا دی ہے۔ ملک تیمور صاحب کی جانب سے پیش کردہ اس قرارداد کی وجہ سے میں یہ جاننے پر مجبور ہوا کہ ڈورے مین سے انہیں کیا شکایات ہیں۔ اپنی اس خواہش کا اظہار اپنے ٹی وی شو میں کیا تو ناظرین کی جانب سے آئی کالیں تھمنے کا نام نہ لیں۔ اکثر ناظرین کا یہ خیال تھا کہ چونکہ جاپانی کرداروں پر مبنی یہ کارٹون ہندی زبان میں ڈب ہوئے ہیں، اس لئے اس کی وجہ سے پاکستانی بچے قومی زبان کے بجائے ہندی بولنا شروع ہوگئے ہیں۔ اپنی زبان بچانے کےلئے ہمیں ان کارٹونوں کو PEMRA کے ذریعے بند کروا دینا چاہیے۔
محض اپنے تجسس کی وجہ سے میں تمام کالرز سے یہ استفسار بھی کرتا رہا کہ آیا انہوں نے یہ کارٹون خود بھی دیکھے ہیں تو اکثر نے اعتراف کیا کہ اپنے بچوں کو یہ کارٹون دیکھنے سے منع کرنے کےلئے انہیں ڈورے مین کو دیکھنا پڑا۔ چند ایک کالرز نے تو اس کے چند ”منفی کرداروں“ کے نام لے کر یہ سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ یہ کردار”منفی“ کیوں ہیں۔
میں ایسے کالرز کو سن کر حیران ہوگیا۔Parental Guidance ایک شے ہوا کرتی ہے۔ پاکستان میں سو کے قریب چینلز سکرینوں پر 24 گھنٹے چلتے ہیں۔ ریموٹ بھی مگر اس سے متعلق ایک آلہ ہے۔ جدید ترین ریموٹس کو آپ Passwords کے ذریعے اپنے ذاتی کنٹرول میں لے سکتے ہیں۔ ویسے تو ماں باپ کا ”حکم“ بھی بچوں کو ایسے کارٹونوں سے دور رکھنے کےلئے کافی ہونا چاہیے۔ میرے والد مرحوم گھر داخل ہونے سے پہلے گلی میں زور سے کھنکارا کرتے تھے۔ان کی کھنکار سن کر ہم سارے بہن بھائی خوف سے Freeze ہو جایا کرتے تھے۔
گھر آنے کے بعد میرے والد بہت تفصیل سے یہ جاننے کی کوشش کرتے کہ ہم نے اپنا ہوم ورک مکمل کرلیا ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ وہ مختلف بہانوں سے اس کھوج میں بھی رہتے کہ ہم نے اپنی نصابی کتابوں کو کس حد تک سمجھ لیا ہے۔ ایسے ”تفتیشی“ والد کے ہوتے ہوئے ہمیں کھیل کود میں وقت ضائع کرنے کی جرا¿ت ہی نہیں ہوتی تھی۔ میں بہت حیران ہوا جب ایک دادا نے ٹی وی سکرین پر اعتراف کیا کہ وہ اپنے پوتوں کو ڈورے مین دیکھنے سے نہیں روک پائے ہیں۔
چاہے آپ کو یہ بات بُری لگے۔ میں اسے کہنے پر لیکن مجبور ہوں۔ ڈورے مین کے ذکر کی وجہ سے ٹیلی فون کالوں کے سیلاب نے مجھے یہ طے کرنے پر مجبور کردیا کہ والدین اور دادا دادی ان دنوں اپنے بچوں پر کنٹرول کھو بیٹھے ہیں۔ جن چیزوں کو دیکھنے سے وہ اپنے ہی بچوں کو روک نہیں پا رہے انہیں PEMRA کے ذریعے بند کروانا چاہ رہے۔ PEMRA کے چیئرمین ابصار عالم اس مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر ایک مشہور انگریزی ناول کے Thought Controller آقا بن جائیں تو معاشرتی قدروں کے ٹوٹ جانے کے موجودہ ماحول میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
اپنے بچوں کا اخلاق اور زبان درست رکھنے کےلئے والدین کے دلوں میں اُٹھی ایک Big Boss کی تمنا نے مجھے خوف میں مبتلا کردیا ہے۔ مجھے مزید سمجھ آگئی کہ ہمارے معاشرے میں کسی ڈنڈا بردار ”دیدہ ور“ کا انتظاراتنی شدت سے کیوں ہو رہا ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت بنیادی طور پر حکومت نہیں والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے۔ اپنے فرائض پورے کرنے پر بجائے شرمندہ ہونے کے حکومتی درباروں میں دہائی مچائی جارہی۔ PEMRA کو بچوں کے ساتھ وہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جو والدین خود ادا نہیں کر پا رہے۔ ڈورے مین کو Ban سے بچانا میرا دردِ سر ہرگز نہیں۔ ہندی زبان کا فروغ بھی میری خواہش نہیں۔ میں اُردو میں لکھتا ہوں۔ میرا رزق اس زبان کو استعمال کرنے سے وابستہ ہے۔ اگرچہ مجھے یقین ہے کہ میں صرف ونحو کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں اکثر ”غلط“ اُردو لکھتا ہوں۔ بولتے ہوئے میرا لہجہ اگرچہ پنجابی سنائی نہیں دیتا۔ قینچی والا ”ق“ بھی نکال لیتا ہوں۔ تلفظ کی غلطیاں مگر بے شمار سرزد ہوجاتی ہیں۔ میری زبان درست کرنا مگر PEMRA کا فریضہ نہیں۔
کالم کے آخر میں سوال یہ بھی اٹھانا چاہتا ہوں کہ بچوں کےلئے اقبال نے لب پہ آتی.... لکھی اور ”ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا....“ والی نظم بھی۔ ان کے بعد صرف اور صرف صوفی تبسم نے ٹوٹ بٹوٹ کی موٹر کار کا ذکر کیا اور ان چوہوں کا جو ”کرنے چلے شکار“ ان دو افراد کے بعد کس شاعر نے صرف اور صرف بچوں کےلئے کیا لکھا؟ کارٹون بنانا ان دنوں فلم بنانے سے بھی مہنگا اور تکنیکی طور پر بہت مشکل کام ہو چکا ہے۔ شعیب ہاشمی نے پی ٹی وی کو اکڑ بکڑ دئیے تھے۔ ان کے شاگرد فاروق قیصر نے ماسی مصیتے اور انکل سرگم متعارف کروائے۔ اس کے بعد کون سا ایسا پاکستانی فنکار ہے جس نے سب کچھ تج کر صرف اور صرف ایسے کارٹون قومی اور مقامی زبانوں میں بنانے کی کوشش کی ہے جنہیں دیکھنے کے بعد ہمارے بچے ”ڈورے مین“ دیکھنے پر خود کو مجبور محسوس نہ کریں اور اس ضمن میں ان کے والدین کچھ بھی نہ کر پائیں؟!