بلاول بھٹو زرداری نے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو انٹیرئر منسٹر کی بجائے انفیرئر منسٹر کہا ہے نجانے ایسے مزیدار جملے بلاول کو کون پڑھاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے وہ شہلا رضا سے ٹیوشن لیتے تھے۔ اب نجانے ان کا استاد کون ہے۔ تنقید میں طنز کو لانا خطرناک ہوتا ہے۔ یہ غیر پارلیمانی ہے بلکہ بہت بڑی زیادتی ہے۔ وہ موجودہ کابینہ میں شاید واحد وزیر ہیں جو وزیر شذیر نہیں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس ایک جملے میں چودھری صاحب کی شخصیت سمٹ آئی ہے اور دوسرے وزراء وغیرہ وغیرہ کو بھی سمجھ آ گئی ہو گی؟ چودھری نثار دبنگ آدمی ہیں کھرے اور سچے۔ دلیر اور غیور۔ وزیروں میں ایسے شخص کا دم غنیمت ہے۔ ان سے اختلاف بھی ہوتا ہے مگر ان کا اعتراف بھی ہے اور اختلاف کرنے کا حق اس کو ہے جو اعتراف کرنا بھی جانتا ہو۔
بلاول بھٹو زرداری نوجوان سیاستدان ہیں۔ پیپلز پارٹی والوں نے انہیں لیڈر بنا لیا ہے۔ اللہ کرے وہ ایسے لیڈر ہوں جیسی بے نظیر بھٹو تھیں جیسے بھٹو صاحب تھے۔ میں نے ’’جیسے‘‘ پر زور دیا ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے بلاول کو جو راستہ دکھایا ہے۔ وہ انہیں ہمیشہ رہنما سمجھیں۔ بی بی بھٹو اور بابا زرداری دونوں کو سامنے رکھا جائے گا تو بلاول کی بات بنے گی۔ بابا کو انگریزی میں پاپا کہتے ہیں۔ صرف ایک شرط ہے کہ وہ اعتزاز احسن کبھی نہ بنیں۔ اعتزاز احسن بلاول کو راضی رکھنے کیلئے بے معنی باتیں نہ کریں۔ اعتزاز ایک اعلیٰ وکیل ہیں وہ سیاستدان بھی ایسے ہی بنیں۔
بلاول کو شیخ رشید نے بلو رانی کہہ دیا تھا تو مجھے اچھا نہیں لگا تھا۔ بعد میں بلاول کے ساتھ شیخ صاحب کی صلح ہو گئی۔ مجھے دونوں رشید شیخ رشید اور پرویز رشید سر (Sir) کہہ کر پکارتے تھے پہلے یہ بات ان دونوں کیلئے فخر کے قابل تھی۔ اب وہ خود کو قابل فخر سمجھنے لگ گئے ہیں یہ بات سیاست میں ضروری بھی ہے اور ان کا حق بھی ہے۔ شیخ رشید کا جو مزاج ہے آغاز سے تھا۔ مگر یہ رویہ پرویز رشید نے انجام کیلئے اختیار کیا ہے۔
پرویزرشید نے ایک بڑے مدبر اور انقلابی لیڈر معراج محمد خان کو یاد کیا ہے۔ مجھے اچھا لگا ہے۔ گورڈن کالج پنڈی میں بڑی رونقیں لگتی تھیں۔ پرویز رشید اور شیخ رشید بھی وہاں تھے گورڈن کالج کے باہر لیاقت باغ کے پاس کونے میں ایک کھوکھا نما چائے خانہ تھا۔ معراج محمد خان بھٹو کے وزیر تھے مگر ہر رات وہاں آ جاتے۔ میں اور ذکی درانی پرویز رشید دو یار اور سوشلسٹ نما دوست محفل لگاتے یہاں کی لکڑی کی پرانی کرسیاں اور عام سے پیالوں میں چائے معراج محمد خان کو پسند تھی۔ وہ صحیح معنوں میں جنوئن انقلابی تھے۔ ابھی پورے سیاستدان نہ بنے تھے۔ بھٹو کا یہ جملہ بہت محبوب ہوا۔ میرے پاس دو معراج ہیں۔ معراج محمد خان اور معراج خالد برادرم توفیق بٹ اور میری بہت دوستی معراج خالد کے ساتھ بھی تھی۔ جب وہ نگران وزیراعظم بنے تو میں نے ان سے کہا تھا کہ الیکشن نہ کرائیں اور تین مہینے میں سچی انقلابی اور جمہوری حکومت بنائیں کوئی سسٹم دیں تاکہ کام چل پڑے۔ معراج محمد خان کو اپنے ساتھ ملا لیں۔ ورنہ اس ملک میں انقلاب اور جمہوریت ایک خواب ہے جو آج کل ڈرائونا خواب بن چکا ہے؟ مستقل نگران وزیر اعظم کا خطاب اور منصب ہم آپ کو دیتے ہیں۔ مگر معراج کے خیالوں میں انقلاب تھا۔ وہ ایک کمزور شخصیت کے مالک تھے بلکہ عبدالمالک تھے۔
بھٹو صاحب کے پاس یہ چند لوگ تھے مگر وہ کسی اور سوچ اور خواہش میں مبتلا تھے۔ وہ تختہ دار پر چڑھ گئے۔ اپنی تمام تر خودسری کے باوجود وہ کچھ نہ کچھ کر جاتے اور یہ نہ ہوتا جو ہو رہا ہے…؎
دنیا میں ٹھکانے دو ہی تو ہیں آزاد منش انسانوں کے
یا تخت جگہ آزادی کی یا تختہ مقام آزادی کا؟
بھٹو کے دیوانہ پرویز رشید اس ملک کی تقدیر بنانے کی جدوجہد میں شریک ہوتے۔ آج وہ معراج محمد خان کی تعریف کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے معراج محد خان کی باتوں پر عمل کیا جاتا تو آپریشن ضرب عضب کی ضرورت نہ پڑتی۔ عزیزم پرویز رشید بتائیں کہ انہوں نے معراج محمد خان کی باتوں پر کتنا عمل کیا ہے۔ اپنی حکومت کو اور نوازشریف کو وہ بتا سکتے ہیں کہ معراج محمد خان کتنا بڑا آدمی تھا۔ کیا نوازشریف معراج محمد خان کو جانتے بھی ہیں؟ کیا موجودہ کابینہ میں کوئی وزیر معراج محمد خان جیسا ہے؟
مجھے شاندار شاعرہ ناز بٹ نے بتایا ہے کہ آج امجد اسلام امجد کی سالگرہ ہے۔ اس خبر سے شعروادب کے لوگوں کو غافل نہیں ہونا چاہئے تھا۔ امجد اسلام امجد جیسا شاعر آجکل کم کم ہے؟ ایک خورشید رضوی ہیں جو نعمت سے کم نہیں ہیں؟ ان کا موازنہ بھی کسی سے کیا نہیں جا سکتا۔ امجد اسلام امجد اپنی پہچان الگ رکھتے ہیں۔ نظم میں ان کا بھی موازنہ تو آج کے کسی شاعرسے نہیں کیا جا سکتا۔ مقبول شعراء میں وہ آجکل سب سے آگے ہیں۔
ناز بٹ نے امجد اسلام امجد کیلئے بہت اچھے جذبات اور خیالات کا اظہار بجا طورپر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ شفقت پدری کی اعلیٰ ترین مثال ہیں۔ مدبر‘ رہنما اور واقعی جنوئن بزرگوں جیسے ہیں۔ ایک گھنیری پُرسکون چھائوں کی طرح کی شخصیت رکھتے ہیں۔ کمال محبت سے مجھے ناز بچے کہتے ہیں تو میرا جی سرشار ہو جاتا ہے۔ ناز بٹ کے کچھ اشعار دیکھئے…؎
خدائے حسن ازل نے مجھے نوازا ہے
خمار عشق سے صرف نظر نہیں ہوئی میں
کسی کو کیسے بتاتی میں منزلوں کا پتہ
جب اپنے ساتھ شریک سفر نہیں ہوئی میں