ارادہ تو یہی تھا کہ آج کی نشست میں حد ادب میں رہتے ہوئے اپنے استادِ مکرم الطاف حسن قریشی کیلئے بطور تبرک کچھ باتیں زبانی عرض کر دوں جس کیلئے مجھے اس لئے بھی آسانی محسوس ہوتی ہے کہ ابلاغ پر محترم مجیب الرحمان شامی جیسی قدرت حاصل نہ ہونے کے باعث اختصار کے ساتھ اپنے مافی الضمیر کا اظہار ہی غنیمت جانتا ہوں جبکہ لکھنے بیٹھوں تو ساری بھولی بسری باتیں بھی ضبط تحریر میں آنے کی متقاضی ہو جاتی ہیں۔ بہرحال محترم الطاف حسن قریشی کا حکم تھا کہ جو بھی کہنا ہے، لکھ کر لانا ہے۔ اس لئے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حد ادب میں کچھ تجاوز ہو جائے تو غالب کی زبان میں یہی عرض کروں گا کہ....
حد چاہئے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہگار ہوں، کافر نہیں ہوں میں
بزرگوارم الطاف حسن قریشی میرے استاد کا درجہ اس بنیاد پر رکھتے ہیں کہ 71ءکی دہائی کے زمانہ¿ طالب علمی میں کالج کی تعلیم کی ابتداءہی میں مجھے افسانے لکھنے کا شوق چرایا۔ کسی تحریر کی اشاعت کیلئے اس وقت اردو ڈائجسٹ سے زیادہ معتبر کوئی جریدہ نہیں تھا۔ میں نے اپنا لکھا ہوا پہلا افسانہ ہی اشاعت کیلئے اردو ڈائجسٹ بھجوا دیا۔ کوئی ایک ہفتے بعد مجھے ڈاک سے ایک پرنٹڈ پوسٹ کارڈ موصول ہوا جس کے ذریعے مجھے افسانے کی وصولی اور باری آنے پر اس کی اشاعت کی رسید دی گئی۔ اس کے نیچے محترم الطاف حسن قریشی کے دستخط ثبت تھے۔ یہ کارڈ وصول کرنے اور پڑھنے کے بعد میرے دل کی جو کیفیت تھی اس کے اظہار کیلئے آج بھی میرے لئے الفاظ کا چناﺅ مشکل ہے۔ وہ افسانہ اردو ڈائجسٹ میں شائع تو نہ ہوسکا اور بعد ازاں 1977ءمیں سیارہ ڈائجسٹ میں شائع ہوا۔ تاہم الطاف حسن قریشی صاحب کی جانب سے اس کے قابل اشاعت ہونے کی رسید ہی نے مجھے معتبر بنا دیا تھا۔ پھر غالباً 1978ءکے آخر میں جب روزنامہ آزاد بند ہوا اور تلاش روزگار کے کٹھن مراحل پھر سامنے آگئے تو شومئی قسمت، مجھے محترم الطاف حسن قریشی کی زیر ادارت ہفت روزہ ”زندگی“ میں بطور ٹرینی کام کرنے کا موقع مل گیا۔ اگرچہ ”زندگی“ میں کام کرنے کا عرصہ ہفتے ڈیڑھ ہفتے پر ہی محیط رہا اور محترم مصطفی صادق کے بلاوے پر مجھے پھر روزنامہ ”وفاق“ میں قیام کا موقع مل گیا۔ مگر میری ڈیڑھ ہفتے کی تربیت پیشہ صحافت میں آج بھی میری زادراہ ہے۔ محترم الطاف حسن قریشی کو شاید میری روداد زندگی کے اس مختصر سے عرصے کا علم بھی نہیں ہوگا مگر اس ناطے سے میں آج بھی انہیں اپنے قابل قدر اساتذہ میں شمار کرتا ہوں۔ ”زندگی“ والی صحافتی تربیت کی بدولت ہی مجھے محترم مجیب الرحمان شامی کے ”بادبان“ میں بھی لکھنے کا موقع ملا اور نوائے وقت کے ساتھ 35 سال سے جاری میرے صحافتی سفر میں بھی بزرگوارم الطاف حسن قریشی کا دیا ہوا اعتماد ہی میری استقامت کا باعث بنا ہے۔
”ملاقاتیں کیا کیا“ پر کچھ عرض کرنے کیلئے محترم الطاف حسن قریشی کے احکام کی تعمیل کا تقاضا نبھانے کی خاطر مجھے کتاب کا باریک بینی سے دوبارہ مطالعہ کرنا پڑا جس کے دوران محترم الطاف حسن قریشی کی شوخئی تحریر اور اچھوتی خاکہ نویسی جہاں لطف دیتی رہی، وہیں ابلاغ اور معلومات کے خزانے بھی کھولتی رہی۔ انہوں نے ”ملاقاتیں کیا کیا“ کے صفحات میں محفوظ جن 23 شخصیات کے انٹرویو کئے، ان کا اپنا مقام و مرتبہ اپنی جگہ مگر انہیں معتبر ٹھہرانے کیلئے یہی دلیل کافی ہے کہ وہ انٹرویو کیلئے محترم الطاف حسن قریشی کے روبرو آئے تھے۔ ان میں مولانا مودودی کے ساتھ تو قریشی صاحب کا ادب آداب والا تعلق تھا اور مولانا ظفر احمد انصاری کے ساتھ اس کتاب کے ذریعے ان کی دوستانہ بے تکلفی محسوس ہوئی۔ جبکہ دیگر شخصیات میں سے بیشتر کا سیاست اور قانون و ادب سے تعلق ہے، اس لئے صاحب کتاب کے ساتھ ان کے تعلق خاطر کو کسی عقیدت سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا، ماسوائے شاہ فیصل کے۔ چنانچہ کتاب میں ہر متعلقہ شخصیت کیلئے الفاظ کا چناﺅ اور بیانیہ بھی اسی پیرائے میں قلمبند ہوا نظر آیا ہے۔ کتاب میں بعض شخصیات کے انٹرویو کے ساتھ محترم الطاف حسن قریشی نے جو حواشی قلمبند کئے ہیں، وہ الگ شاہکار ہیں اور فی الواقع ان میں حکومت و سیاست کے کئی پہلوﺅں کی پوری تاریخ محفوظ کردی گئی ہے۔ مثلاً مولانا مودودی کے انٹرویو کے ساتھ منسلک حاشئے میں بھی اور صاحب کتاب کے اپنے ”سپاس ناتمام“ میں بھی مولانا مودودی کی جانب سے 1948ءمیں جہاد کشمیر کے حوالے سے کی گئی اس وضاحت پر آج بھی بحث و تمحیص کے دروازے کھل سکتے ہیں کہ جہاد کے اعلان کا اختیار صرف ریاست کو حاصل ہے اور اسلام کے اندر غیر ریاستی عناصر کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس مو¿قف پر مولانا مودودی اس وقت بھی سخت تنقید کی زد میں آئے تھے اور انہیں کئی ذیلی سوالات کے جواب دینا پڑے۔ جبکہ اس وقت کے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ اعلان کیا کہ ہماری فوجیں کشمیر میں لڑ رہی ہیں تو مولانا مودودی نے اپنی جماعت کو جہاد کشمیر میں حصہ لینے کی تلقین کی اور تمام مسلمانوں کو بھی اپنا فریضہ ادا کرنے کا احساس دلایا۔ جہاد کشمیر تو بلاشبہ 1948ءسے جاری ہے تو کیا ہم جہاد میں غیر ریاستی عناصر کے شریک ہونے کا آج بھی یہ جواز پیش نہیں کر سکتے کہ جہاد کشمیر کے حوالے سے جو پالیسی حکومت کی جانب سے 1948ءمیں وضع کی گئی تھی جس سے سر ظفر اللہ خان نے اقوام متحدہ کو بھی آگاہ کر دیا تھا، حکومتی سطح پر وہی پالیسی آج بھی برقرار ہے۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کا بطور وزیر اعظم کشمیر کیلئے ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے کا اعلان بھی اس پالیسی کا تسلسل تھا اور آج حکومت کی جانب سے کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی میں معاونت کی بروئے کار لائی جانے والی سفارتی سطح کی کوششیں اور ان کا دامے درمے سخنے ساتھ نبھانے کا اعلان بھی اسی حکومتی پالیسی کا حصہ ہے تو پھر اس جہاد میں پس و پیش بھلا کیا معنی رکھتا ہے۔
1953ءمیں اینٹی قادیانی تحریک کو مہمیز دینے کی پاداش میں مولانا مودودی کی فوجی عدالت سے پھانسی کی سزا کی تاریخ کو اجاگر کرتے ہوئے کتاب میں میجر جنرل اعظم خاں کے لاہور کارپوریشن کی حدود میں لگائے گئے مارشل لاءکا تذکرہ آیا تو ذہن میں یہ خیال جاگزین ہوا کہ تاریخ کا ریکارڈ درست رکھنے کی خاطر ہمیں ایوب، یحییٰ، ضیاءاور مشرف کی جرنیلی آمریتوں کے ساتھ ساتھ میجر جنرل اعظم خاں کے 1953ءکے مارشل لاءپر بھی اور بطور سول مارشل لاءایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو کے نافذ کردہ 1972ءکے مارشل لاءپر بھی تبّرہ کسنا چاہیے۔ پھر تاریخ کا ریکارڈ اس حوالے سے بھی درست رکھا جا سکتا ہے کہ ہم نظریہ ضرورت والے عدلیہ کے کردار کا تذکرہ کرتے ہوئے اس حقیقت کو ہرگز فراموش نہ ہونے دیں کہ جب 24 اکتوبر 1954ءکو گورنر جنرل نے پہلی دستور ساز اسمبلی تحلیل کی تو اس کے خلاف سپیکر اسمبلی مولوی تمیز الدین کی دائر کردہ آئینی درخواست پر طاقت ور ترین گورنر جنرل کے اس آمرانہ فیصلے کو سندھ چیف کورٹ نے ان کی طاقت و اختیار کی موجودگی میں غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے کر اسمبلی بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس جرا¿ت رندانہ پر کیا سندھ چیف کورٹ کے متعلقہ جج سلام عقیدت کے مستحق نہیں؟ بے شک اس کے بعد پاکستان فیڈرل کورٹ اس جرا¿ت رندانہ کا مظاہرہ نہ کر سکی اور چیف جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت ایجاد کر لیا مگر عدلیہ کا کسی آمر مطلق کو اس کے اقتدار کے دوران غاصب قرار دینا بھی تو روشن باب کے طور پر عدلیہ کی تاریخ کا حصہ بننا چاہیے۔ اس کتاب میں جنرل یحییٰ خان کو غاصب قرار دینے سے متعلق جسٹس حمود الرحمن کے جس فیصلے کا حوالہ دیا گیا ہے وہ ان کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد صادر ہوا تھا۔ بھلے اس کا تذکرہ بھی سنہری الفاظ میں کیا جائے مگر کیا سندھ چیف کورٹ کے گورنر جنرل کی موجودگی میں 9 فروری 1955ءکو صادر کئے گئے فیصلہ کو فریم کراکے تمام سرکاری دفاتر میں آویزاں کرانے کی ضرورت نہیں؟