پانامہ کیس فیصلہ کے بعد عدالت عظمیٰ پاک فوج کیخلاف مہم پر وکلاءکا اظہار تشویش

لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائی کورٹ بار اور سپریم کورٹ بار کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ حکومتی ایما پر سیاستدانوں اور ضرورت مند وکلاءنے عدلیہ کے خلاف تحریک شروع کررکھی ہے۔ عدلیہ کے خلاف بیان بازی کرنے والے وکلاءکی بار رکنیت معطل اور ذمہ دار سیاست دانوں کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ بار میں ہائیکورٹ بار کے عہدیداروں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری سپریم کورٹ بار آفتاب باجوہ نے کہا کہ پانامہ کیس کا فیصلہ تاریخ ساز ہے عدالتی معاونت کرنے پر جے آئی ٹی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ن لیگی وزراءگلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی عہدیداران کے بیانات کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عاصمہ جہابگیر کے پاس کسی بار کا کوئی عہدہ نہیں۔ عدلیہ خلاف بیان دینے والوں کو معافی مانگنے کی مہلت دیتے ہیں۔ بار کے ممبران عدالتوں کے بارے میں بیان دینے سے پرہیز کریں۔ صدر لاہور ہائیکورٹ بار ذوالفقار چوہدری نے کہا کہ چند دوستوں نے افواج پاکستان اور عدلیہ کے خلاف باتیں کی۔ عاصمہ جہانگیر کو عدلیہ سے متعلق اپنے دیئے ہوئے بیانات پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل ملک عنائیت اللہ اعوان ،سید عظمت علی بخاری چئیرمین ایگزیکٹو کمیٹی پنجاب بار کونسل اور دیگر ممبران پنجاب بار کونسل نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پنجاب بار کونسل سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے پانامہ لیکس کے ایشو پر کئے جانے والے فیصلہ کا بھر پور خیر مقدم کرتی ہے۔ دریں اثناءپاکستان بارکونسل نے پانامہ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد سپریم کورٹ اور مسلح افواج کے خلاف چلائی جانے والی مہم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے پانامہ کیس میں تاریخی فیصلہ دیا ہے کیونکہ سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے افراد بھاری منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں۔ وائس چیئرمین بار کونسل محمد احسن بھون اور چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی حفیظ الرحمن کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق کچھ لوگوں کی طرف سے نہ صرف ملک کی اعلیٰ ترین عدالت بلکہ آرمڈ فورس کے خلاف بھی تضحیک آمیز تحریک چلائی جا رہی ہے۔ ان دونوں بڑے اداروں نے ملکی تاریخ میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ قبل ازیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری آفتاب باجوہ نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ پانامہ لیکس کیس میں جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم ٹین (10)کو منظرعام پر لایا جائے تاکہ عوام کو پتہ چل سکے کہ ان کے لیڈر کن غیر قانونی اقدامات میں ملوث ہیں۔ حیرت ہے کہ پانامہ لیکس کیس میں درخواست گزار سیاسی جماعتوں نے بھی والیم ٹین کو کھولنے کا مطالبہ نہیں کیا۔ لاہور ہائیکورٹ بارمیں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ والوں نے پہلے مطالبہ کیا تھا کہ رپورٹ کے والیم ٹین کو منظر عام پر لایا جائے لیکن جب سپریم کورٹ کے بنچ نے میاں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کو والیم ٹین پڑھنے کو دیا تو انہوں نے اس کے صرف دو صفحات پڑھ کر عدالت سے والیم ٹین نہ کھولنے کی درخواست کی۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...