مضبوط حکومت بند گلی میں؟

بادی النظر میں تو مضبوط و مستحکم حکومت کا معاملہ بند گلی میں نظر آ رہا ہے۔ جہانگیر ترین اور علیم خان کی تیز رفتار اڑانوں اور رابطوں نے 172 کی سادہ اکثریت سے عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ کی راہ تو ہموار کر دی ہے مگر قانون سازی اور بالخصوص اہم اصلاحات ترامیم کے لئے مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں ہو گی کیونکہ تحریک انصاف کی 140 متحدہ قومی موومنٹ کی 7 ’ق‘ لیگ کی 3 (کل پانچ میں سے پرویز الٰہی کی دو خالی ہو جائیں گی) بلوچستان نیشنل پارٹی کی 5 ، پی ڈی اے کی 3 اور جمہوری وطن پارٹی کی 1 ملا کر 172 بنتی ہیں جبکہ دو تہائی اکثریت کے لئے 229 ارکان کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت صرف پیپلز پارٹی کے اشتراک سے ہی پوری ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ بہت سادہ بات نہیں ہے۔ آصف زرداری کی لوٹ کھسوٹ اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے اور پیپلز پارٹی جیسی پارٹی سے کسی صورت اتحاد نہ کرنے کے عمران خان کے بیانات کی گونج ملکی فضائوں میں ابھی موجود ہے جو دراصل ’’نئے پاکستان‘‘ کی بنیاد ہے اگرچہ اس کا حل آصف زرداری کی بجائے بلاول زرداری سے معاملات طے کرنے کی صورت موجود ہے لیکن کیا بلاول پارٹی بالخصوص آصف زرداری کی مرضی کے خلاف فیصلے کر سکتا ہے اس کا جواب بیک ڈور رابطوں کے نتائج سے یوں ملتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے پنجاب اور کے پی کے کی حکومتوں میں حصہ داری کا مطالبہ تو شاید عمران کے لئے ماننا مشکل نہیں ہے مگر جو مطالبہ تسلیم کرنا انتہائی مشکل ہے وہ ہے آصف زرداری کو صدر مملکت بنانا۔ صدر بن کر استثنیٰ حاصل ہونے کے نتیجے میں آصف زرداری کی پانچ سال کے لئے مقدمات سے جان چھوٹ جائے گی اس پس منظر میں بلاول کا یہ بیان کسی سے غیر مشروط تعاون نہیں کریں گے ’’بہت اہم ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے اگر آصف زرداری صدر اور عمران خان وزیراعظم ہوں تو یہ کیسا عجیب و غریب سیٹ اپ بنے گا۔ عمران کے قومی دولت کے لٹیروں کے خلاف نعروں کا کیا بنے گا اور روایتی سیاست کی یہ بے اصولی کون سا نیا پاکستان بنائے گی۔ پیپلز پارٹی سے اتحاد جہاں عمران کو ایک مضبوط و مستحکم حکم کی بنیاد بنے گا وہاں اپنے دعوئوں، وعدوں اور بیانات کی روشنی میں بننے والا عمران کا امیج کہاں جائے گا ہاں واحد صورت یہ ہے کہ جس طرح بارہ آزاد ارکان کو تحریک انصاف میں لایا گیا ہے وہاں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے کم از کم 50 ارکان توڑ کر ان کے فارورڈ بلاک بنائے جائیں۔ سندھ کے سیاسی حلقوں کے مطابق شاہ محمود قریشی نے پیپلز پارٹی کے رہنمائوں سے رابطے کئے ہیں اس کے جواب میں پیپلز پارٹی کی جانب سے متذکرہ بالا مطالبات پیش کر دئیے گئے ہیں اور مطالبات پورے ہونے کی صورت میں تحریک انصاف کو سندھ حکومت میں حصہ دیا جائے گا۔ گورنر تحریک انصاف کا ہو سکتا ہے۔ نعیم الحق پھر گورنر ہو سکتے ہیں۔ بتایا گیا ہے پنجاب کے گورنر ہائوس پر بابر اعوان کی نظریں ہیں پرویز الٰہی کو بھی پیشکش تھی مکروہ گورنر کی بجائے سپیکر شپ پر راضی ہو گئے ہیں تو اب چودھری سرور گورنر ہو سکتے ہیں۔ تحریک انصاف سندھ کے ذرائع کے مطابق چودھری سرور صدر مملکت بنائے جانے کیلئے زیر غور ہیں اس طرح برطانیہ سے رابطے زیادہ بہتر ہو سکتے ہیں۔
اگرچہ شیخ رشید وزارت داخلہ کے لئے بضد ہیں مگر چکوال کے ضمنی الیکشن میں کامیابی کی صورت کو اس کا قرعۂ فال چودھری شجاعت حسین کے نام نکل سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی اگرچہ عمران کی ضرورت ہے لیکن متحدہ قومی موومنٹ کی طرح پارٹی کے اندر پیپلز پارٹی کے خلاف بھی قابل ذکر مزاحمت ہے۔
اس لئے عمران خان کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وزیراعظم بننے کے بعد بذریعہ بلاول پیپلزپارٹی سے رابطہ کریں۔ اس طرح وزیراعظم سے فائدہ اٹھانے کی سوچ پارٹی کے اندر مزاحمت کو ختم یا ختم کے قریب کر سکتی ہے۔ بہرحال چند روز میں سب سامنے آجائے گا۔ اگر پیپلزپارٹی سے معاملات طے ہوگئے تو متحدہ کی بھی سندھ حکومت میں حصہ داری کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ وفاق میں وزیرقانون کیلئے فروغ نسیم امیدوار ہونگے۔
کے پی کے میں تحریک انصاف اور سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت بننے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ سندھ میں 35 رکنی بھاری بھرکم کابینہ بنانے کی شنید ہے۔ پہلی کوشش فریال تالپور کو وزیراعلیٰ بنانے کی ہے۔ اس صورت میں سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ سپیکر اور سابق وزیراعلیٰ مراد علی شاہ ڈپٹی سپیکر ہو سکتے ہیں۔ ڈپٹی سپیکر کیلئے سرگرم نام جام مدد علی کا لیا جا رہا ہے۔ خواتین کی مخصوص نشستوں پر تنزیلہ قیصرانی پیپلزپارٹی کی پہلی ایم این اے بن گئی ہیں۔
اندرون سندھ 18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ شروع ہو گئی ہے۔ عوامی سطح پر کہا جا رہا ہے پیپلزپارٹی حکومت کے ساتھ لوڈشیڈنگ بھی واپس لیکر آئی ہے۔ ادھر جے ڈی اے نے احتجاجی تحریک کا اعلان کیا ہے۔ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا ‘ غوث علی شاہ‘ سردار رحیم‘ ذوالفقار مرزا‘ کرشن چند پروانی اور نعیم الرحمن نے کراچی میں پریس کانفرنس میں اس کا اعلان کیا مگر اس احتجاجی تحریک کے ثمر آور ہونے کے حوالے سے زیادہ امید ظاہر نہیں کی جا رہی۔ تحریک انصاف سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت میں شامل ہوگی تو پھر سندھ میں تاریخ کی کمزور ترین اپوزیشن ہوگی۔

ای پیپر دی نیشن