”ہال آف شیم؟“

کسی بھی جمہوری معاشرے میں الیکشن جمہوریت کے عروج و زوال کا عکاس ہوتے ہیں۔ پاکستان میں الیکشن دو ہزار اٹھارہ دس سال کے دوران تیسرا انتخابی عمل تھے جس کے بعد پاکستانی جمہوریت کو دوام ملنا چاہیے تھا۔
بدقسمتی سے ایسا ہوا نہیں۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے پانچ سال کے ادوار ِحکومت مکمل کرنے ، الیکشن کمیشن کے قانونی اختیارات میں اضافے، فوج کی غیر معمولی اندر باہرسکیورٹی، غیر جانبدار مگر بے جان نگران حکومت ، آزاد عدلیہ اور میڈیا کے باوجود پوری دنیا کے مبصرین اور پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کی نظر میں جمہوریت اور انتخابی عمل کمزور اور بدنام ہوا ہے۔ اس جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لئے پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعے بہت پاپڑ بیلے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔گذشتہ تیس سال کے دوران آٹھ انتخابات ہوئے اور ہر بار سیاسی و جمہوری عمل مضبوط ہونے کی بجائے ایک نئے المیے سے دوچار ہوا۔ ہماری جمہوریت کا سفر 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں ایک کٹھ پتلی وزیراعظم محمد خان جونیجو سے شروع ہو کر آج ایک کٹھ پتلی نظام حکومت تک پہنچ رہا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا جب سکیورٹی کے نام پر بیلٹ کو بلٹ کے حوالے کر دیا گیا۔پولنگ اسٹیشنوں سے ریٹرننگ افسروں تک اور ریٹرننگ افسروں سے الیکشن کمیشن تک عوام کے ووٹ اور اسکے نتیجے نے اونٹ کی مانند جو سفر کیا یہی وہ وقت تھا جب عوامی مینڈیٹ نے اپنی آخری ہچکی لی۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے اسی مسافت کو کم کرنے کیلئے ایک خاص نظام متعارف کرایا گیا تھا جس کو آر ٹی ایس (رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم) یعنی نتائج کی ترسیل کا نظام۔اسکی خاص بات یہ تھی کہ پورے ملک کے پچاسی ہزار پولنگ اسٹیشنوں سے ان کے پریذائیڈنگ افسروں نے مرتب شدہ نتائج براہ راست الیکشن کمیشن کو بھیجنے تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہی نتائج یعنی کہ فارم 45 ریٹرننگ افسروں کو بھی اسی نظام کے تحت موصول ہو جاتا۔
اگر یہ نظام کامیابی سے چلنے دیا جاتا تو اداروں کو "آپریشن ردو بدل" جیسی اصطلاحات کی بدنامی نہ مول لینا پڑتی مگر اب تک کے انکشافات کے مطابق پریذائیڈنگ افسروں اور الیکشن کمیشن کے درمیان قائم نتائج کی تقسیم کے اس رابطے کو جان بوجھ کر مبینہ طور پر اس لئے ناکام بنایا گیا کہ ریٹرننگ افسروں کے دفتروں میں ان کے متعلقہ حلقوں کے نتائج کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کیا جا سکے۔ جس فارم 45 نے آر ٹی ایس نظام کے ذریعے براہ راست الیکشن کمیشن تک پہنچنا تھا اگر ایسا ہو جاتا تو ریٹرننگ افسران بعد میں اپنی مرضی کے نتائج مرتب نہ کر سکتے اور پھر الیکشن کمیشن کو پولنگ اسٹیشن میں پیش آنے والے تنازعات کا براہ راست اندازہ ہو جاتا اور اگر الیکشن کمیشن بھی آر ٹی ایس کے نظام کے باقاعدہ ناکام ہونے کا مجبوراً اعلان نہ کرتا تو پھر نتائج کی بے وجہ تاخیر کا جواب کیا دیا جاتا۔پولنگ اسٹیشنوں پر جس انداز سے سکیورٹی کے نام پر ووٹ اور پھر نتائج کے مرتب کرنے کے دوران غیر قانونی قبضہ کیا گیا اس کے بعد آر ٹی ایس نظام کا چلتے رہنا ہی ان تمام معاملات کا بھانڈا پھوڑ دیتا۔سوال اٹھتا کہ اگر آر ٹی ایس نظام چالو تھا تو پھر پولنگ اسٹیشنوں سے فارم 45 کیوں نہیں پہنچ سکے۔اس کا الیکشن کمیشن آخر کیا جواب دیتا؟ اس کا حل یہی تھا کہ آر ٹی ایس نظام کی ناکامی کا باقاعدہ اعلان کر دیا جاتا۔
الیکشن کمیشن کو پچاسی ہزار پولنگ اسٹیشنوں سے براہ راست اور بروقت فارم 45 مل جاتا تو پھر "آپریشن ردوبدل" جیسی کاروائیوں یا خدشات کی گنجائش نہ رہتی۔ مگر جب "قومی سلامتی و مفاد" میں دھاندلی فرض ِ منصبی ٹھہرے تو پھر آر ٹی ایس جیسے کئی نظام آئین سے حلف وفاداری سمیت قربان کرنے پڑتے ہیں۔چھ بجے پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد متعلقہ سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹوں کی موجودگی میں ووٹ کی پرچیوں کی گنتی کوئی ایٹمی فارمولہ نہیں تھا مگر چونکہ ان بیلٹ بکسوں کے اندر سے نکلنے والے دہشتگردوں اور غداران وطن کو چن چن کر مارنا مقصود تھا اس لئے فارم 45 کا بروقت مکمل کرنا اور اسکی آر ٹی ایس کے ذریعے براہ راست ترسیل روکنا لازمی ٹھہرا۔ اسی لئے ایک "نیک قومی مقصد" کی خاطر قانونی اور تکنیکی اعتبار سے یہ اعلان ضروری ہو گیا تھا کہ ”ہمارا آر ٹی ایس کا نظام بیٹھ گیا ہے"۔ اس اعلان کے بعدچیف الیکشن کمشنر اور انکے سیکرٹری نے باآسانی اپنے سر سے قانون اور ضمیر کا بوجھ اتار پھینکا۔ "خس کم جہاں پاک"۔
ترمیم شدہ الیکشن قوانین کے مطابق پولنگ اسٹیشنوں سے فارم 45 کی الیکشن کمیشن کو براہ راست ترسیل ایک قانونی تقاضا تھا گو کہ قانون میں آر ٹی ایس کے الفاظ استعمال نہ کئے گئے تھے۔انتہائی شرمناک ہیں وہ اطلاعات کہ جن کے مطابق الیکشن کمیشن کی طرف سے پریذائیڈنگ افسران کو زبانی احکامات دئیے گئے کہ وہ فارم 45 کی ترسیل آر ٹی ایس کے نظام سے کرنے کی بجائے ریٹرننگ افسران کے دفاتر میں پہنچائیں۔شاید یہی وہ "چور کی داڑھی میں تنکا "تھا کہ الیکشن کمیشن نے آئینی طور پر خودمختار اور بااختیار ادارہ ہوتے ہوئے بھی آر ٹی ایس کے ناکام ہونے کی تحقیقات بین الاقوامی یا قومی ماہرین کی بجائے کابینہ ڈویژن کے سرکاری نوکروں سے کروانے کا فیصلہ کیا۔وہ نوکر کہ جن میں سے بیشتر نے ساری عمر چاپلوسی اور بدیانتی کے بعد ایک اعلیٰ مقام پایا تھا اور جو اس آر ٹی ایس نظام کی ناکامی کے باعث منتخب ہونے والے نئے وزیراعظم کی تقریب حلف برداری کی تیاریوں میں مگن و مدہوش تھے۔ "آپریشن ردوبدل" کے کرتا دھرتا یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس ملک میں پہلے بھی بڑی بڑی تحقیقات کے اعلانات ہوتے رہے ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف عوام کو جھوٹی تسلیاں دینا ہوتا ہے۔اب جب تک آر ٹی ایس کی ناکامی کی تحقیقات شروع ہوں گی یا پھر مکمل ہوں گی تو اس وقت تک الیکشن کمیشن ، نادرا اور کابینہ ڈویڑن کے متعلقہ افسران کسی نئی نوکری کی امید کے ساتھ ایک بار پھر اپنی آئندہ نسلوں کے ساتھ گھر بیٹھے ٹیلیفون کی گھنٹی بجنے کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ان سب کے پاس ایک ہی دلیل ہوتی ہے کہ بھئی یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہے ، میں اکیلا کیا کرسکتا ہوں، اس ملک میں تو وزرائے اعظموں کے ساتھ جو ہوا اس پر کسی نے کیا کر لیا ، تو پھر میں کسی کھیت کی مولی ہوں۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ایک بار ہال آف فیم یعنی ملک کی مشہور شخصیات کے لئے مختص ایک گیلری کی طرز پر ایک ہال آف شیم (یعنی ملک کے لئے باعث شرم شخصیات ) بنانے کی تجویز دی تھی مگر شاید معاملہ کسی ایک ہال سے بہت آگے نکل چکا ہے۔

مطیع اللہ جان....ازخودی

ای پیپر دی نیشن