حالیہ انتخابات میں عوام نے تبدیلی کے بیانیے کو عزت دی۔ تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری اور عمران خان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا ۔ساتھ ہی ساتھ عوام نے نئے پاکستانمیں پرانی سایست کو نکال پھینکا ۔ بحرحال انتخابات کا مرحلہ تمام ہوا پرانے پاکستان سے نئے پاکستان تک کے سفر میں دہشت گردی کی لہر نے رکاوٹ بننے کی کوشش کی۔ ہارون بلور، سراج رئیسانی، اکرام اللہ گنڈا پور سمیت درجنوں بہادروں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے ۔ انتخابی عمل کو روکنے کی سازش کو سیکورٹی فورسز نے ناکام بنایا اور قوم نے بذریعہ ووٹ دشمن کو شکست دی۔ دشمن سے میری مراد بھی آرمی چیف کی طرح وہ دہشت گرد ہیں جو حالیہ دہشت گردی میں ملوث تھے۔ نہ کہ وہ لوگ جو الیکشن میں ہارے ۔ مولانا فضل الرحمن ایک موقع پر آرمی چیف کے بیان کو غلط رنگ دینے کی کوشش کر رہے تھے حالانکہ وہ خود بھی اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ہارنے والوں میں صرف مذہبی جماعتیں نہیں بلکہ بائیں بازوں کی پارٹیاں بھی ہیں۔ بحرحال پاکستان میں دوسری بار اقتدار ایک جمہوری حکومت سے منتخب ہونے والی نئی حکومت کے حوالے ہو گا عمران خان انیسویں وزیراعظم ہوں گے۔ صوبہ خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کو بھاری مینڈیٹ حاصل ہے ۔ جبکہ صوبہ بلوچستان میں تحریک انصاف اور بلوچستان عوامی پارٹی کا مل کر حکومت بنانے پر اتفاق ہو چکا ہے۔ فواد چوہدری کے مطابق وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے پی ٹی آئی تقریباََ نمبر گیم پوری کر چکی ہے ۔حکومت سنبھالتے ہی تبدیلی کے سفر کا آغاز کرنا ہوگا۔ عمران خان قوم سے جو امید لگائے بیٹھے تھے قوم نے اسے پورا کیا۔ اب وقت ہے کہ عمران خان عوام کی امیدوں پر پورا اتریں ۔ نئی حکومت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جن میں سر دست تباہی کے دہانے پر کھڑی معیشت ،داخلہ اور خارجہ پالیسی، بیرونی مداخلت کا خاتمہ، امن و امان کا قیام ، حزب اختلاف کے ساتھ مثبت تعلقات کے ساتھ ساتھ وہ تمام وعدے بھی ہونگے جو انتخابی مہم کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے رہنمائوں نے عوام سے کیے۔ ان وعدوں میں کرپشن کا خاتمہ، انصاف کی فراہمی،اداروں کو مضبوط کرنا۔ بلا امتیاز نظام تعلیم ، بنیادی ضروریات کی فراہمی ، ٹیکس اکھٹا کرنا، غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینا۔ نئے ڈیمز کی تعمیر ، بجلی کی فراہمی ، بلدیات کو مضبوط کرنا اورپارلیمنٹر ینز سے قانون سازی کروانا شامل ہوں گے۔ ملکی معیشت کی بہتری کے لیے ہنگامی بنیاد پر اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ کیونکہ سٹیٹ بینک کی جانب سے گذشتہ ہفتے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے پاس صرف20ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر رہ گئے ہیں۔ جس کا مطب ہے کہ پاکستان کے پاس دو ماہ کی برآمدات کے پیسے نہیں رہے۔ اس صورتحال میں چین کی جانب سے دو ارب ڈالر کے اضافی قرضے کی نوید سنائی گئی۔ پاکستان ملک میں جاری بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے بڑے منصوبوں کے لیے پہلے ہی چین سے پانچ ارب ڈالر کا قرضہ لے چکا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) پاکستان کی نئی حکومت کو کوئی ایسا بیل آئوٹ پیکج نہ دے جس کے فنڈز چین کا قرضہ ادا کرنے کے لیے استعمال کیے جائیں۔ ان حالات میں ملکی معیشت اور روپیہ کی قدر میں کمی کے حوالے سے درپیش بحران ،عمران خان کے لیے ایک بڑا معاشی چیلنج ہو گا۔ عمران خان نے الیکشن میں کامیابی کے بعد ایک وکٹری اسپیچ کی تھی جسے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں سراہا گیا۔ عمران خان نے پاکستان کو مدینہ جیسی فلاہی ریاست بنانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اور کمزور طبقہ کہ ذمہ داری قبول کی ۔اس تقریر میں انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کے الیکشن کے حوالے سے تمام تحفظات دور کرانے کی یقین دہانی کرائی۔ اور یہ وعدہ بھی کیا کہ آنے والی حکومت کوئی سیاسی انتقام نہیں لے گی۔ البتہ ادارے مضبوط کیے جائیں گے۔ ملک میں عدل و انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا اور احتساب سب سے پہلے عمران خان اور ان کی کابینہ کا ہوگا۔ اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان کو وکٹری اسپیچ جیسی حکمت عملی اپنانی ہو گی ۔وفاقی کابینہ ، گورنرز اور وزرائے اعلی کا انتخاب میرٹ پر کرنے کے بعد عملی کام شروع کرنا ہو گا۔ کیونکہ تبدیلی صر ف باتوں سے نہیں بلکہ عمل سے نظر آئے گی۔ اللہ تعالی آنے والی حکومت کو ملک و ملت کی بہبود کے لیے کام کرنے کی توفیق دے ۔آمین
قوم انیسویں وزیراعظم کی منتظر
Aug 05, 2018