کشمیر کے لاک ڈائون کو ایک سال بیت گیامودی کی دہشت گردانہ حکومت نے ایک سال قبل پانچ اگست کو کشمیرکی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے وہاں پر فوجی حصار کھینچ ڈالا،اس ایک سال میں جنسی تشددکادائرہ کار بڑھ گیا خواتین کی تذلیل معمول کی بات بن گئی ، اس سلسلے میں آوازاٹھانے والے ہزاروں نوجوان گرفتار کرلیے گئے خواتین اور مردوں کے چہروں پر پیلٹ گن اور آنسو گیس ماری گئی جس کے باعث ہزاروں کشمیری آنکھوں میں آزادی کے خواب سجائے یا تو اندھے ہوگئے یا پھر جام شہادت نوش کرگئے ،بھارتی آئین میں کشمیر کے حوالے سے دو اہم اور بنیادی آرٹیکل شامل رہے ہیں جن میں ایک آرٹیکل ون جو یہ کہتاہے کہ جموں کشمیر بھارت کی ایک ریاست ہے اور ایک اور دوسرا آرٹیکل 370 تھا جس کی حیثیت عارضی قراردی گئی تھی لیکن یہ دوسرا آرٹیکل مقبوضہ وادی کو ایک خصوصی حیثیت دیتاتھااور یہی بات گجرات کے قصائی مودی کو ہضم نہیں ہوپائی، گزشتہ تہتر برسوں میں ظلم وستم کا بازار تو اسی طرح گرم رہامگر کبھی بھارت کی کسی بھی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا نہیں سوچا،مودی کی حکومت سے قبل کانگریس،بی جے پی ،جیسی جماعتوں نے اقتدار میں آکر بھی آرٹیکل 35اے اور370کے تحت کشمیر کی متنازع حیثیت کے معاملے میں ہاتھ نہیں ڈالامگر ظلم کا سفر پھر بھی جاری رہا، کشمیر کی اس خصوصی حیثیت سے چھیڑ چھاڑ صرف مودی سرکار نے ہی کی مقبوضہ وادی میں بھارتی بربریت جبر اورمودی سرکار کے لاک ڈاون کو ایک سال مکمل تو ہوگیا مگرجہاں ہم کشمیری بہن بھائیوں کی اس ایک سال کی اذیتوں کو دیکھتے ہیں وہاں ہمیں اس بات کا بھی احساس ہونا چاہیئے کہ ظلم کی اس رات کا دور انیہ ایک سال یعنی 365دن نہیں ہے بلکہ انسانیت سوز جرائم کا یہ سلسلہ پچھلے 73سالوں سے مختلف شکلوں میں مسلسل جاری ہے ،مقبوضہ وادی میں زندگی آج بھی قید ہے جہاں دنیا بھر کے اخبارات اور جریدوں نے اسے دنیا کی سب سے بڑی جیل قراردیا، آج پاکستان کی وفاقی حکومت جس سنجیدہ انداز میں مظلوم کشمیریوں کی آواز بنی ہوئی ہے اور جس طرح سے پوری دنیا میں وزیراعظم عمران خان اور ہماری افواج پاکستان مودی کا فاشسٹ چہرہ دکھارہی ہے وہ اب انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی برادری سے کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے اسی ظلم و جبر کے ایک سال یعنی کشمیر میں لاک ڈائون کے بعد کے ظلم ستم کو اجاگر کرنے کے لیے وفاقی حکومت نے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر یوم استحصال منانے کا فیصلہ کیاہے 5اگست 2019 سے 5اگست 2020 تک اہل کشمیر کے باسیوں پر کیا کیا گزری مقبوضہ کشمیر میں ظلم، جبر اور بربریت کا ایک سال کن تکالیف کے ساتھ گزرا اسے میں اپنے پڑھنے والوں کے ساتھ ضرور شیئر کرنا چاہونگا جب مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ سال 5اگست کو نریند ر مودی نے آرٹیکل 370کو ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا۔اس کے بعد اگست 2019سے لیکر جولائی 2020تک 13582معصوم کشمیریوں کو انڈین فوج نے گرفتارکیا اور نامعلوم مقامات پر منتقل کرکے ان پر لاتعداد مقدمات بناڈالے۔اس دوران اس ایک سال میں 1331افرا د کوبہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اوردرجنوں افراد کو شہید کیا گیا۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے کشمیریوں کے تقریبا 935مکانات اور دکانوں کو نذر آتش کیا گیااور اس دوران جس انداز میںچادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا گیا وہ ایک الگ المیہ ہے 100سے زائد کشمیری خواتین کی عصمت دری کے واقعات سامنے آئے فوجی محاصر ے کے بعد مواصلات کی ناکہ بند ی اور کرفیو کی وجہ سے 144500سے زائد افراد بیروزگار ہوئے۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی 2020تک مقبوضہ کشمیر میں تجارتی خسارہ 15000کروڑ سے زیادہ اور ٹوٹل 496000افراد کی ملازمتیں ختم ہوئیں۔مقبوضہ کشمیر میں اب تک 6000سے زائد بے نشان قبریں ملی ہیں جن کو انڈین فوج نے بے دردی کے ساتھ قتل کیا اور کسی کو معلوم بھی نہیں ہونے دیاہزاروں کی تعد اد میں کشمیر ی اب بھی ہندوستان کی مختلف جیلوں میں قید ہیں جن کا کوئی ریکارڈ نہیں۔جموں کشمیر میں تمام سرکاری و نجی تعلیمی ادارے بند ہیں ، 365دنوں سے کشمیر ی انٹرنیٹ، موبائل اور دیگر مواصلاتی سہولیات سے محروم ہیں اور یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ کشمیریوں کی درد ناک چیخیں دنیا میں کہیں نہ سنائی دے سکیں لیکن الحمداللہ پاکستان نے ہمیشہ اپنے کشمیری بہن بھائیوں کا ساتھ دیا اور ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑے رہے موجودہ دور حکومت میں ہم نے دیکھا،27ستمبر 2019کو وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کا مسئلہ اٹھایا اور کشمیر کے سفیر ہو نے کا ثبوت دیا۔اپنی تقریر میں وزیراعظم عمران خان نے دنیا کے ضمیر کو جھنجوڑ ڈالا۔ہم نے دیکھا کہ تاریخ میں پہلی بار ساری دنیا کے سامنے نریندر مودی اور فاشسٹ تنظیم آر ایس ایس کو بے نقاب کیا۔ یہی نہیں ہمارے وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے کچھ تاریخی الفاظ کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی ۔27ستمبر 2019کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سارک کونسل کے وزراء کی میٹنگ میں انڈین وزیر خارجہ کی تقریر کا بائیکاٹ کیا، سارک کونسل وزراء میٹنگ میں شاہ محمود قریشی نے کہا میرے لیئے ممکن نہیں کہ میں کشمیریوں کے قاتل کے ساتھ بیٹھوں، ان الفاظوں نے پورے کشمیر کے مظلومو ں کو حوصلہ دیا ، لیکن میں سمجھتاہوں کہ اب ظلم کی یہ سیاہ رات چھٹنے والی ہے کشمیریوں کی جدوجہد اور قربانیاں اب رنگ لانے والی ہیں ،بھارت نے اپنے مظالم دنیا بھر سے چھپانے کے لیے جہاں مواصلاتی نظام بند کررکھاہے وہاں انہوں نے اقوام متحدہ کے مبصرین کا دفتر بھی نئی دہلی میں بند کرررکھاہے ،جبکہ میں یہ سمجھتاہوں کہ اقوام متحدہ ،یورپی یونین اور او آئی سی جیسی انسانی حقوق کی تنظیموں کی آنکھوں سے کشمیر میں ہونے والا ظلم کسی بھی لحاظ سے اوجھل نہیں ہے ،دنیا اب جان چکی ہے کہ کشمیریوں کا حق خود ارادیت کیاہے ،کیوں کہ ہماری حکومت دنیا بھر میں بھارتی بربریت کو بے نقاب کررہی ہے ہر پلیٹ فارم پر کشمیریوں کا مقدمہ پیش کیا جارہاہے ،جبکہ یہ بات بھی دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کی کشمیر کے لیے تین جنگیں ہوچکی ہیں،جس میں بھارت کو ہمیشہ منہ کی کھانا پڑی لیکن دنیا بدل چکی ہے تاریخ گواہ ہے کہ ظلم کی رات طویل ضرور رہی ہے مگر ایک روز ختم ضرور ہوئی ہے اب بھارت کو خود سمجھ جانا چاہیئے کہ وہ طاقت کے زور پر کشمیریوں کے عزم وہمت کو نہیں کچل سکتا،کسی بھی قسم کی مزاحمت کشمیریوں کے حوصلے کم نہیں کرسکتی، آج لاشوں سے چمٹ کرروتے ہوئے معصوم بچے شہیدوں کی پیشانیوں کو بوسہ دیتی ہوئی مائیں جنت نظیر کشمیر میں بے بسی کی نہیں بلکہ حوصلے کی ایک مثال بن چکی ہیں آج کشمیریوں کا دنیا سے مواصلاتی رابطہ مکمل طور پر کٹ چکا ہے مگر ایک رابطہ ایسا بھی ہے جو پاکستان کی حکومت اور عوام کا ہے جو کبھی ختم نہ ہوگااور وہ دن دور نہیں جب کشمیر کے سفیر وزیراعظم پاکستان عمران خان کی قیادت میںکشمیر آزاد کروائینگے ، ا س کے لیے ہم سب کو ملکر وزیراعظم اور وفاقی حکومت کے ہاتھوں کو مظبوط کرنا ہوگا۔آئو سب ملکر اک عہد کریں کہ ہم ان مظلوم کشمیریوں کی وفائوں کا بدلہ وفائوں سے دینگے کہ جن کے شہید آج بھی پاکستانی پرچم میںدفنائے جاتے ہیں۔