نئی دہلی (نوائے وقت رپورٹ) 1947ء میں چھوٹی بڑی کئی ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ بھارت یا پاکستان میں سے کسی کے ساتھ الحاق کر لیں اس کے تحت 15 اگست کو نواب مہابت خان جی سوم کو خط لکھا گیا کہ وہ بھارتی پاکستان میں سے کس کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں تو اس نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اس اعلان پر بھارت کی حکومت نے شدید احتجاج کیا۔ ہندو راجہ نے بڑا احتجاج کیا 17 ستمبر کو اس وقت کے سیکرٹری آف سٹیٹس وی پی میمن نے جونا گڑھ کا دورہ کیا تاکہ نواب مہابت خان جی کو بھارتی حکومت کا پیغام دیا جا سکے۔ پاکستان سے الحاق کا فیصلہ واپس لے لے مگر ملاقات نہ ہو سکی اور بہت غصے میں واپس آ گیا۔ صدر ممبئی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران جونا گڑھ کی عبوری حکومت قائم کرنیکا اعلان کر دیا۔ 25 ستمبر 1947ء کو باقاعدہ قیام کا اعلان کر دیا اور اردگرد کی ریاستوں کی فوج کو جونا گڑھ کا محاصرہ کئے رکھنے کی ہدایت کی 9 نومبر 1947ء کو باقاعدہ جونا گڑھ پر قبضہ کر لیا اور 2 سال بعد فروری 1949ء میں رائے شماری کرائی جس میں 2 لاکھ 1457 میں سے ایک لاکھ 90 ہزار 870 افراد نے بھارت سے الحاق کا فیصلہ سنا دیا۔جونا گڑھ شہر میں 18 ویں صدی میں نوابوں کی جانب سے چٹا خانے چوک میں مقبرہ مہابت خان تعمیر کروایا گیا۔یہ مقبرہ فن تعمیر کے حوالے سے انڈواسلامک گوتھک اور یورپی سٹائل کا مجموعہ ہے۔ اس کے مینار اور گنبد نوعیت کے اعتار سے خالصتاً اسلامی تشخص رکھتے ہیں جبکہ یہاں تراشے ہوئے بت وغیرہ اور ستون سٹائل میں گوتھک ہیں۔ مقبرہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی سیڑھیاں میناروں کے باہر سے اوپر کو جاتی ہیں۔ تقسیم کے وقت یعنی 1947ء میں نواب مہابت علی خان سوم نے جونا گڑھ میں پاکستان کی کوئی مشترکہ سرحد نہ ہونے کے باوجود پاکستان کیساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ بھارتی حکومت کے دباؤ میں پاکستان چلے آئے اورآخر جونا گڑھ اپنی آزادی کے صرف 3 ماہ بعد بھارت کے ساتھ مل گیا۔