اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں سانحہ آرمی پبلک سکول ازخودنوٹس کیس میں عدالت نے انکوائری رپورٹ پر اٹارنی جنرل کو حکومت سے ہدایات لینے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے کہاکہ اٹارنی جنرل کے جواب کی روشنی میں کیس آگے بڑھائیں گے، چیف جسٹس گلزار احمد نے واضح کیا کہ سانحہ اے پی ایس کے ذمہ داران کو نہیں چھوڑیں گے، سماعت کے دوران والدین کمرہ عدالت میں آبدیدہ ہو گئے۔ والدین نے کہا کہ اس صورت حال میں ہم یہاں نہیں رہ سکتے۔ پاکستان میں ہمارے بچے محفوظ نہیں۔ جس کرسی پر آپ بیٹھے ہیں اللہ نے آپکو بہت عزت دی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ آپکی محافظ ہے، جو آپ کے ساتھ ہوا ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہے تھا یہاں قانون کی حکمرانی ہے جس کی کوتاہی ہے اسے قانون کے مطابق دیکھیں گے۔ شرپسند سکول میں داخل ہوئے اور بچوں کو شہید کیا، ہم نے کسی بھی ذمہ دار کو نہیں چھوڑنا ہے، جو رپورٹ آئی ہے اس پر فیصلہ عدالت نے ہی کرنا ہے، ہماری آپ سے بے حد ہمدردی ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے شہداء کے والدین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ عدالت سے کیا چاہتے ہیں۔ اس پر والدین نے کہا کہ ہمیں کمیشن رپورٹ کی کاپی چاہے، چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ ابھی ہم نے نہیں پڑھی اور حکومت کا جواب آئے گا تو دیکھ لیں گے، جسٹس اعجازالاحسن بولے چھ والیم پر مشتمل رپورٹ ہے پہلے عدالت دیکھے گی پھر بتائیں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ اس میں دو کلام نہیں قانون اور آئین کے مطابق جو ہوگا وہی کریں گے، ہم نے کمیشن بنایا ہے اسے پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے، عدالت نے پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس ابراہیم کی سربراہی میں قائم کمیشن کی رپورٹ اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایات لینے کا کہا بعدازاں عدالت نے آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے کیس مزید سماعت چار ہفتے تک ملتوی کر دی۔ سپریم کورٹ کے باہر میڈیا ٹاک کرتے ہوئے اے پی ایس حملے میں شہید بچوں کے والدین نے کہا ہماری بات پہلے بھی پوری طرح ٹی وی پر نہیں آتی، جب میڈیا ہماری بات آگے پہنچاتا ہی نہیں تو بات کرنے کا فائدہ نہیں، رپورٹ میں تین ہزار صفحات ہی نہیں ہونے چاہئیں، بڑی کوششوں اور منتوں سے یہ کمیشن بنا ہے، شہید بچے زین اقبال کی والدہ نے کہا اس سانحہ میں جو شہید ہوئے وہ سب ہمارے بچے اور کولیگ تھے، آئین میں ہمارے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے، اتنے سال کے بعد بھی ہم انصاف سے محروم ہیں۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے سابق اے ایس ایف ملازم نجمہ اختر کی بحالی کی درخواست خارج کردی، چیف جسٹس گلزار احمد کی سر برا ہی میں بینچ نے کی دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا15 سال بعد غیر حاضر رہنے کے بعد نوکری پر کیسے بحال کردیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہائیکورٹ میں آپ نے بحالی کی درخواست واپس لے لی تھی، جس پر درخواست گزار نے کہاکہ ہائیکورٹ سے درخواست واپس نہیں لی، میری عدالت مدد کرے، چیف جسٹس نے کہا ہمارے ہاتھ میں اب کچھ نہیں، قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے سرکاری نوکری دلانا کام نہیں، ہمارا کام فیصلہ کرنا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا نوکری کیلئے محکمہ سے رابطہ کریں۔