لاہور (فاخر ملک) تحریک انصاف کی وفاقی کابینہ میں تین سال بعد پہلی بار کاشتکار لابی کپاس (پھٹی) کی امدادی قیمت مقرر کرانے میں کامیاب ہو گئی۔ جس کے نتیجہ میں کپاس کے کاشتکاروں کوسالانہ 30 سے 50 ارب روپے اضافی اور عالمی منڈیوں میں موجود کپاس کی مساوی قیمت ملنے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ اس ضمن میں ملک میں کپاس کی پیداوار کا اندازہ لگانے والی کمیٹی کے کئی ہفتے قبل ہونے والے اجلاس میں بتایا گیا تھا کہ کپاس کے ملکی کاشتکاروں کو عالمی منڈیوں میں کپاس کی ملنے والی قیمتوں کے مقابلہ میں ہر سال 40 سے 50 ارب روپے کم ملتے ہیں۔ اس طرح گزشتہ دس سالوں میں ملکی کپاس کے کاشتکاروں کو 400 سے 500 ارب روپے کے خسارہ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ گندم کی فصل کی طرح کپاس کی حکومتی امدادی قیمت کا مقرر نہ ہونا ہے۔ واضح رہے کہ وفاقی کابینہ نے منگل کے روز پھٹی (کپاس) کی امدادی قیمت 5000 روپے فی من مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ موجودہ مارکیٹ میکنزم سے انہیں منڈیوں میں اپنی پیداوار کی قیمت فصل کی لا گت سے بھی کم ملتی ہے۔ گزشتہ برس کپاس کی پیداوارکم ترین سطح 56لاکھ گانٹھوں تک پہنچ گئی جو کہ 1997-98ء میں ایک کروڑ 28لاکھ گانٹھوں تک پہنچ گئی تھی۔ واضح رہے کہ 2014ء میں کپاس کی پیداوار ایک کروڑ 44 لاکھ گانٹھیں تھی اس وقت بھی گانٹھ کا وزن 150 کلو گرام تھا۔ کپاس کی ملکی کھپت اور برآمدات میں تعلق کے حوالہ سے پاکستان کسان اتحاد کے صدر خالد محمود کھوکھر کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائیل کی 60 فیصد برآمدات کا انحصار کپاس کی پیداوارپر ہے اور گزشتہ سیزن میں کپاس کی پیداوار میں کمی سے پاکستان کے ٹیکسٹائیل کے شعبہ نے دو ارب ڈالر کے لگ بھگ کپاس درآمد کی جس سے ملکی تجارتی خسارہ میں اضافہ ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ رواں سیزن کی کپاس اور پھٹی ملکی مارکیٹوں میں فروخت ہونا شروع ہو گئی ہے اور پھٹی کا ریٹ 6000 سے 7000 روپے فی من کے درمیان ہے۔ اگرامدادی قیمت کا اعلان پھٹی کی بوائی سے قبل کر دیا جاتا تو ملک میںرواں سیزن میں آنے والی پیداوار کے مقابلہ میں 20 لاکھ گانٹھیں اضافی طور پر پیداواری عمل کا حصہ بن سکتی تھیں۔ واضح رہے کہ ماضی میں بھی پھٹی کی امدادی قیمت مقرر ہوتی رہی ہے لیکن گزشتہ کئی سالوں سے اس پریکٹس کو ختم کر دیا گیا۔ اس سلسلہ میں بتایا گیا ہے کہ فروری 2021ء میں ملک میں کپاس کی پیداور کی کا اندازہ لگانے والی کمیٹی کے چئیرمین سید فخر امام کی صدارت میں کسان تنظیموں کے نمائندوں کا اجلاس ہوا جس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے شرکت کی اور کسان لابی کی نمائندگی کرتے ہوئے کپاس کی امدادی قیمت مقرر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس موقع پر کسان نمائندوں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں زرعی پیداوار میں کمی کی اہم وجہ خطہ کے دوسرے ممالک کے مقابلہ میں مقامی کسانوں اور کاشتکاروں کو ناکافی سہولتوں کی دستیابی ہے۔