’’جا اپنی حسرتوںپہ آنسو بہا کے سوجا‘‘

Aug 05, 2022

اس دن پنجاب اسمبلی میں ایک معرکہ ھی تھا  جسے دیکھنے کو ھم نے وھاں کا رخ کیا تھا   وھاں بھی تو ایک آگ کا دریا تھا ۔فیصلہ جن کی توقع کے خلاف آیا تھا وہ ہمیشہ کی طرح آدھی رات کو عدالت کٹھٹانے چل دیے  پھر دوسرے ھی دن  عدالتی کاروائی وقفوں وقفوں سے رات تک پہنچی اور اگلے دن تک ملتوی ھو گئی بہت باتیں ،بہت ریمارکس اور تلخ جملوں کے بارے میں لمحہ بہ لمحہ پتہ چلتا رھا پھر اعلیٰ مرتبت نے ارشاد فرمایا کہ یہاں کے ایک پانچ رکنی بنچ نے وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا تھا "بیشک وکالت ، سیاست اور صحافت کے طالب علموں کو یاد ھے اور یہ بھی  یاد ھے کہ  ایک وزیر اعظم کا جو ڈیشل مرڈر بھی ہوا تھا ،اس وقت کے چیف جسٹس صاحب نے کئی فورمز پر اس غلط فیصلے کو ماننا پڑا ،جناب چار بار اقتدار اعلیٰ پر قابض ہونے والوں کو نظریہ ضرورت کی چھتری فراہم کی تھی۔ یاد آیا ایک فوجی آمر کو آئین میں ترمیم کا  حق بھی دیا گیا ۔پھر سوموٹو کا زمانہ آیا ،ریکوڈک والے معاملہ میں  ملک کا اربوں ڈالر کا نقصان کروایا وہ بھی تو محترم ھی تھے ۔عرض تو یہ ھے کہ جب لوگ جب مشکل میں پھنس جاتے ہیں ، جب ان کی کوئی کہیں شنوائی نہیں ھوتی تو وہ بڑے مان سے ، بڑے یقین ، بڑے اعتماد سے انصاف کا دروازہ بجاتے ہیں لیکن جب ان کی امیدوں پر پانی پھرتاھے یا پھیر دیا جاتا ھیے تو کوئی بوڑھا کسی کو تھانیدار بننے کی دعا دیتا ھے اور استفار پر بتاتا ھے کہ تھانیدار نے اس معاملے کو دو دن میں حل کرانے کا طریقہ بتایا  تھا جس میں عدالت نے چھ سال لگائے ۔  ابھی ابھی ایک پرانے وکیل دوست نے بتایا ھے  کہ  یہی سپریم کورٹ خود یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد اب آرٹیکل63 اے کے تحت  کسی پارٹی کے ووٹ دینے کے بارے میں فیصلے کا اختیار  پارٹی صدر کو ہو گا۔ سوال اب یہ ہے کہ یہی سپریم کورٹ اب ماضی کے اس فیصلے کے خلاف پارٹی سربراہ  پر پارلیمانی پارٹی کو کیسے فوقیت دے سکتی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ پرانا فیصلہ آٹھ ججوں نے کیا تھا۔ آٹھ ججوں کا فیصلہ اس سے کم جج کیسے رد کر سکتے ہیں۔ کچھ سیاسی کچھ شرارتی لوگ اکثر یہ سوال ایک دوسرے سے کرتے ہیں کہ آج ہماری عدالتیں ، دنیا میں کونسے نمبر پر کھڑی ہیں؟ جواب سے بہت سے لوگ آگاہ ہیں۔ہر سیاسی کیس راتوں، رات کیسے لگ جاتا ہے۔  طاقتوروں کو بجلی کی رفتار سے ریلیف مل جاتا ہے۔ شیری مزاری کی بیٹی کو چند ہزار کی ضمانت چند منٹوں میں مل جاتی ہے ۔اسی طرح اعجاز الحق اور شیخ رشید کا ایک ہی کیس تھا۔ لیکن معیار  دوہرے کیوں تھے؟  آصف زرداری کو جھوٹے منشیات کیس میں ریلیف کیوں نہیں دیا گیا۔ پھر پرویز مشرف کو ٹیک اوور کے بعد ساڑھے تین سال دے دیئے۔کبھی کبھی عقل سوچ سوچ کر تھک ھار کے سو جاتی ھے ’’جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سوجا‘‘

مزیدخبریں