یومِ استحصال :مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے تین برس

Aug 05, 2022

یوم استحصال کشمیر  بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام کو تین برس مکمل ہونے پر5 اگست کو پاکستان بھر میں کشمیروں سے اظہار یکجہتی کے لیے منایا جارہا ہے.  ان تین سالوں میں دنیا نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی قابض افواج کا غیر معمولی ظلم و بربریت دیکھ لیا ہے،غیر انسانی فوجی محاصرے کا تسلسل، آبادی کے تناسب میں تبدیلیاں لانے کی سازشیں، انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی خلاف ورزیاں، بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں انسانیت اور سلامتی سے متعلق بحران کو ہوا دے رہی ہیں جس سے علاقائی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے خطے میں پائیدار امن و استحکام کے لیے کشمیر کے مسئلے کا اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل ناگزیر ہے۔  دنیا کشمیریوں کی شناخت کو تباہ کرنے اور آبادی کے تناسب کو طاقت کے ذریعے بدلنے کی بھارتی کوششوں کو بھی دیکھ رہی ہے۔    بھارت کا خیال ہے کہ وقت کے ساتھ کشمیری یا پاکستان کا کشمیر پر موقف کمزور ہوگا تو بہتر ہے وہ سمجھ لیں کہ جلد از جلد اس غلط فہمی سے نکل جائیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کے ذریعے خطے کا استحکام تباہ کررہا ہے، کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ان کا حق ملنے تک پاکستان بھرپور طریقے سے کشمیریوں کا مقدمہ لڑتا رہے گا۔    بھارت آگ سے کھیل رہا ہے، بھارتی سازشوں کے باوجود پاکستان ایک مضبوط ملک بن کر ابھررہا ہے، پاکستان کشمیریوں کو آزادی دلا کررہے گا۔ ہم ا?پ کے ساتھ ہیں اور رہیں گے، جب تک کشمیر ا?زاد نہیں ہوتا پاکستان کا کوئی فرد چین سے نہیں بیٹھے گا۔موجودہ حکومت نے امن کا پرچار کیا تاہم پاکستان کشمیر میں حالات معمول پر آنے تک بھارت سے مذاکرات نہیں کرے گا
، جب تک بھارت 5 اگست 2019 کو کئے گئے اقدامات واپس نہیں لیتا اس وقت تک مذاکرات نہیں ہوں گے۔  بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش کررہا ہے، 30 سے 40 لاکھ غیر کشمیریوں کو وادی کا ڈومیسائل جاری کیا گیا، بھارت اس اقدام کے ذریعے وہاں حالات تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ بھارت اپنے ملک میں اقلیتوں سے انسانیت سوز سلوک کررہا ہے اور یہی سلوک کشمیریوں سے بھی کررہا ہے۔خیال رہے کہ 5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو ایک ریاست کے بجائے 2 وفاقی اکائیوں میں تقسیم کیا تھا اور اس کے بعد وادی میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لیے غیر مقامی افراد کو زمین خریدنے کی اجازت دی گئی تھی۔اس کے علاوہ بھارت نے مقبوضہ وادی میں اپنے جابرانہ اقدامات پر کشمیریوں کی جانب سے کسی بھی مزاحمت سے بچنے کے لیے سخت ترین فوجی محاصرہ کیا گیا تھا جو تاحال جاری ہے۔  پاکستان میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے منائے جانے والے یومِ استحصال کے موقع پر سرکاری سطح پر متعدد پروگرامز تشکیل دیے گئے ہیں، اس سلسلے میں صبح 9 بجے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جائیگی اور ملک بھر کی اہم شاہراہوں پر سڑکوں پر رواں ٹریفک روک دیا جائیگا۔ وہ دن ہے جب مقبوضہ جموں کشمیر کے عوام نے ہڑتال کا اعلان کیا کیوں کہ بھارت نے اپنے ہی ا?ئین میں دفعہ 370 اور 35 اے کے تحت تبدیلیاں کیں تھی .  مقبوضہ کشمیر کو تقسیم ہند کے اصولوں پر پاکستان کا حصہ بننا تھا جن کو پامال کیا گیا جس کے نتیجے میں ا?ج تک بھارت نے وہاں ظلم و زیادتی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔  کشمیری بھائیوں اور بہنوں کو پیلیٹ گن سے نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ نابینا ہوئے، ہزاروں شہید ہوئے اور یہ زیادتی ا?ج بھی جاری ہے۔ اقوامِ متحدہ نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا وعدہ کیا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ دنیا خاموش ہونے لگی مگر کشمیری خاموش نہیں ہوسکا جو اپنے بچپن سے ہی ظلم و زیادتی کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جس کثیر تعداد میں بھارتی فوجی موجود ہیں وہ دنیا کی ا?نکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں  بہانے بہانے سے کرفیو لگا دیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ ا?زادی کا جھنڈا اور ا?واز اٹھاتے ہیں۔    بھارتی حکومت کی طرف سے بھارتی غیرقانونی زیر تسلط جموں کشمیر میں ظلم و بربریت آر ایس ایس کے ہندوتوا نظریے کا تسلسل ہے، آج بھارت اپنے جابرانہ اقدامات اور ریاستی دہشت گردی کے ذریعے خطے کااستحکام تباہ کر رہا ہے جو کہ تمام بین الاقوامی قوانین اور اقدار کی خلاف ورزی ہے 5 اگست 2019 کو مودی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی قانونی حیثیت کو تبدیل کیا اور کشمیریوں پر ظلم کا ایک نیا دور شروع کیا۔ آئین ہند میں کشمیر پر دو بنیادی آرٹیکل شامل تھے۔ آرٹیکل 370 جو مقبوضہ ریاست کو خصوصی حیثیت دیتا تھااور آرٹیکل 35 اے کے تحت یہ واضح کیا گیا تھا کہ کون مقبوضہ کشمیر کا مستقل شہری ہے اور کون زمین خرید سکتا ہے۔اسکے ختم ہونے کے بعد سے تب سے وہاں بدترین مظالم شروع ہو گئے۔ کشمیری عوام بیرونی دنیا سے کٹ گئے اور وادی کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کر دیا گیا۔ کشمیریوں پر ظلم و ستم گزشتہ ایک صدی سے جاری ہے ، لیکن آرٹیکل 370 اور 35 اے کے منسوخ ہونے کے بعد سے صورتحال خراب ہو گئی ہے۔ہزاروں فوجی اہلکار ہر وقت سڑکوں پر گشت کرتے ہیں اور علاقے میں کسی احتجاج یا اجتماع کی صورت میں فوری کارروائی کرتے ہیں۔نہتے کشمیریوں کو خون میں نہلایا جاتا ہے ، حوا زادیوں کی معصومیت کو پاؤں تلے روند دیا جاتا ہے ، کشمیروں کو قید کی سختیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان پر آتش فشاں کی بارش کی جاتی ہے۔ وہاں قائم کیے گئے عقوبت خانے ہٹلر اور چنگیز خان کے مظالم کو شرما رہے ہیں۔

 جانداروں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، ان کے ہتھوڑے ہتھوڑوں سے توڑے جاتے ہیں ، ناخن نکالے جاتے ہیں ، اور ان کے سر اور داڑھی کے بال نوچ لیے جاتے ہیں۔ بلاشبہ یہ کرہ ارض پر ہمارے وقت کا سب سے بڑا المیہ ہے۔جہاں بھارتی سامراج کے ظلم نے آگ بھڑکا رکھی وہیں کشمیری عوام کا جذبہ بھی دکھائی دے رہا ہے۔ وہ ہمت اور بہادری کے نشان ، آج کشمیر کا ہر گھر محاز جنگ کی کیفیت میں، ہر گلی میدان جنگ ہے ۔ کشمیر کا ہر گھر شہیدوں کے خون سے روشن ہو رہا ہے۔ کشمیری عوام بغیر کسی بیرونی مدد کے اپنی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کے ارادے عظیم ہیں اور ان کے حوصلے بلند ہیں۔ وہ اپنے ہی خون میں ڈوب رہے ہیں اور کشمیر کی آزادی کا جھنڈا لہرا رہے ہیں۔ اگرچہ بھارتی قاتل طاقتیں کشمیر پر اپنے خونی پنجے بچھا رہی ہیں ، لیکن آزادی کشمیر کے ہر سانس سے "کشمیر بنے گا پاکستان’’ کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے بھارت نے ہر حربہ آزمایا لیکن کشمیری عوام کی حریت کا جذبہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ آج اگر اس جنت کی وادی کو بھارتی سامراج نے روند ڈالا۔ یہاں کے لالہ زار اپنی سرخیاں کھو رہے ہیں اور شہدائ￿  کے خون سے لال ہو رہے ہیں۔ ان گنت مظلوم لوگوں کی آہیں اور جو ظلم کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں وہ عرش الٰہی کا طواف کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ سارا منظر دل دہلا دینے والا ہے ، لیکن اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ آزادی کے طلوع ہونے کا پہلا پیش خیمہ ہے۔پاکستان اور کنڑول لائن کے دونوں جانب سمیت دنیا بھر میں مقیم کشمیری 5 اگست کو یوم استحصال منائیں گے، یہ دن بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کے تین سال مکمل ہونے پر منایا جارہا ہے۔ بھارت میں برسر اقتدار نریندر مودی کی ہندو فرقہ پرست حکومت کشمیر کی بھارتی تسلط سے آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والے رہنمائوں کو انتقامی کارروائیوں کانشانہ بنانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔ اسی مذموم سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے بھارت نے5 اگست 2019 کو غیرقانونی اور یکطرفہ طور پر کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا اور آئین کے آرٹیکل 35 اے اور 370 کو معطل کرکے کشمیر پر اپنے غیر قانونی فوجی قبضے کو مزید مضبوط بنانے کی کوشش کی۔بھارت کے ڈومیسائل اور ملکیتی قوانین مقبوضہ جموں و کشمیر کے آبادیاتی ڈھانچے اور کشمیریوں کو اقلیت میں بدلنے کیلئے تبدیل کیے گئے، کشمیری عوام بھارتی حکومت کے ظالمانہ اور غیر قانونی اقدامات کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں۔ بھارتی حکومت کے 5 اگست 2019 کے غیر قانونی اقدام کے بعد مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں افراد کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا گیا، حریت کانفرنس کی پوری قیادت اور آزادی پسند کارکنوں کو فرضی مقدمات میں عقوبت خانوں اور گھروں میں نظربند کیا گیا ہے بھارتی حکومت کے ان غیر آئینی اقدام کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب کم کرنا اور بھارتی باشندوں کو آباد کرنے کی گھناونی سازش کا حصہ ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کو اس بات کا جائزہ لینا چایئے کہ سخت قوانین کے نفاذ، وادی کشمیر کو کئی دہائیوں تک فوجی محاصرے میں رکھنے، ہزاروں بے گناہ کشمیریوں اور ان کے حقیقی نمائندوں کو قید کرنے اور ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کے بے دریغ قتل کے باوجود بھارت کشمریوں کے جذبہ آزادی کو کیوں خاموش نہیں کراسکا ہے اور یہ کہ کشمیریوں کے دل میں آزادی کا شعلہ 7 دہائیوں کے بعد بھی روشن ہے، یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جموں و کشمیر ایک بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے جو اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے اور اس کا حل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں پر عمل درآمد میں مضمر ہے۔تاریخی دستاویز کی روشنی میں اگر تنازعہ کشمیر کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ برصغیرکی تقسیم کے فارمولے کے تحت مسلم اکثریتی علاقے پاکستان اور ہندو آبادی والے علاقوں کو بھارت میں شامل کرنے کا منصوبہ پیش کیا گیا۔
اس مقصد کیلئے برطانوی حکومت نے 3 جون 1947ئ￿ کو متحدہ ہندوستان کی تقسیم کا باقاعدہ اعلان کیا جس کے بعد 18 جولائی 1947ئ￿ کو آزادی ہند کا قانون پاس کیا گیا۔برصغیر کی تقسیم کیلئے دو بائونڈری کمیشن قائم کئے گئے جن کا کام پنجاب اور بنگال کی سرحدوں کا تعین تھا، اس کام کی نگرانی برطانوی قانون دان سر ریڈ کلف کو سونپی گئی جس نے اصولوں کو نظر انداز کر کے مسلمان اکثریت رکھنے والے پنجاب کے ضلع گورداسپورکی تین تحصیلوں کو بھارت میں شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا جس کے نتیجہ میں بھارت کو ریاست جموں و کشمیر پر فوج کشی کیلئے زمینی راستہ ملا۔ کشمیر کو بھارت کے ساتھ ملانے والی واحد شاہراہ ضلع گورداسپور سے ہی گزرتی تھی۔ ریڈ کلف ایوارڈ تیاری کے بعد 12 اگست کو وائسرائے ہند لارڈ مانٹ بیٹن کو پیش کیا گیا جسے 17 اگست 1947ئ￿ کو منظر عام پر لایا گیا۔ وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن، سر ریڈ کلف اور ہندئولیڈروں کی سازش کے باعث مسلم اکثریتی گورداسپور بھارت کا حصہ بن گیا

مسلم اکثریتی گورداسپور بھارت کا حصہ بننے کے بعد بھارتی حکمرانوں نے کشمیر پر اپنا تسلط جمانے کیلئے باقاعدہ سازش رچائی۔ بھارت کے ساتھ نام نہاد الحاق کی آڑ میں کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانا مسلمانان ریاست کی خواہشات اور امنگوں کیخلاف تھا۔ بھارتی لیڈروں نے انگریزوں کی حمایت سے سازش کرکے تقسیم ہند کے اصولوں کو کشمیر میں نہیں اپنایا۔27 اکتوبر 1947ئ￿ کو تاریخ کا سیاہ ترین باب رقم ہوا اس روز بھارتی مسلح افواج تمام بین الاقوامی اصول و ضوابط اور قوانین کو اپنے پائوں تلے روندتے ہوئے وادی کشمیر میں داخل ہوئیں۔ بھارت کے ہندو انتہا پسند لیڈروں نے کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ اور انگریزوں سے ملکر ایک منصوبہ بند سازش کے ذریعے کشمیر میں اپنی فوج داخل کی، بھارتی فوج کشی سے قبل کشمیر کے ایک وسیع علاقے میں مقامی لوگوں اور مجاہدین نے مہاراجہ ہری سنگھ کی وفا دار فوج کو نکال باہر کردیا تھا۔ ہری سنگھ نے دارالحکومت سرینگر سے فرار ہونے کے بعد جموں میں پناہ لے لی اور بھارت کے ساتھ ایک جعلی اور نام نہاد الحاق کیا جس کے فوری بعد بھارت نے بڑے پیمانے پر اپنی افواج کو کشمیر میں داخل کرلیا۔ہری سنگھ کے سرینگر سے فرار سے قبل 24 اکتوبر 1947ئ￿ کو مرحوم سردار محمد ابراہیم خان کی قیادت میں آزاد کشمیر حکومت قائم کی گئی۔اس صورتحال کے پیش نظر مہاراجہ ہری سنگھ نے سرینگر چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور 26 اکتوبر 1947ئ￿ کو بھارت کے ساتھ الحاق کرلیا۔ ہری سنگھ کی بھارت سے نام نہاد دستاویز الحاق قانونی اعتبار سے کوئی حیثیت نہیں رکھتی کیونکہ وہ کشمیر کی حکمرانی کھوچکا تھا ۔ مسلمانوں کی غالب اکثریت اور جغرافیائی محل وقوع کے پیش نظر 1947ئ￿ میں کشمیر کاپاکستان کے ساتھ الحاق فطری بات تھی لیکن کشمیر کی مسلم اکثریت کی رائے کو مسترد کرتے ہوئے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے ایک خفیہ گٹھ جوڑ کے ذریعے بھارت کے ساتھ الحاق کا ڈرامہ رچایا۔ تقسیم برصغیر سے قبل کشمیری مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس 19 جولائی 1947ئ￿ کو سرینگر میں اپنے اجلاس میں الحاق پاکستان کی قرارداد منظور کرچکی تھی۔ مسلم کانفرنس کی یہ متفقہ قرارداد لاکھوں کشمیری مسلمانوں کی آواز تھی کیونکہ 1946ئ￿ کے ریاست گیر اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کیلئے مختص کردہ 21 نشستوں میں سے 16 پر مسلم کانفرنس کے امیداواروں نے کامیابی حاصل کی تھی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھارت کے ساتھ کشمیر کے نام نہاد الحاق کو مسترد کرتے ہوئے کشمیر میں رائے شماری کے حق میں قراردادیں پاس کررکھی ہیں۔ 1947 میں بھارت کے گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن نے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کو عارضی قرار دیتے ہوئے واضح اور دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ بھارت سے کشمیر کا الحاق عارضی اور مشروط ہے اور صورتحال کی بہتری کے بعد جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان سے الحاق کا فیصلہ ریاستی عوام کی آزادانہ مرضی سے کیا جائے گا۔بھارت نے اقوام متحدہ میں بھی کشمیریوں کے حق آزادی کو تسلیم کیا۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہرو اور دیگر بھارتی نیتا?ں نے بین الاقوامی فورموں، پارلیمنٹ اور کشمیر کے دوروں کے دوران اس وعدے کو نبھانے کا اعلان کیا لیکن اس کے باوجود ایک منصوبہ بند طریقے پر کشمیری عوام کے مطالبہ آزادی دبانے کیلئے پورے مقبوضہ علاقے میں گزشتہ سات دہائیوں کے دوران انسانی حقوق کے بے دریغ پامالیاں کی گئیں۔ اکتوبر اور نومبر 1947ئ￿ میں جموں اور اس کے نواحی علاقوںمیں تین لاکھ سے زائد مسلمانوں کو محض اس لئے شہید کیا گیا کہ وہ اپنی تقدیر پاکستان کے ساتھ وابستہ کرنا چاہتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت ریاست جموں و کشمیر پر سات دہائیوں سے غیر قانونی طور پر قابض ہے اور وہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کررہا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ یہ دوٹوک موقف اپنایا ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے ذریعے کشمیریوں کے حق ِخودارادیت کے لیے اپنی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔ پاکستان کا یہ موقف ہے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا خواب اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق تنازعہ کشمیرکے پرامن حل پر منحصر ہے۔ عالمی برادری کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت کے ان غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو ختم کرائے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل کیا جائے۔مقبوضہ کشمیر میں جس کثیر تعداد میں بھارتی فوجی موجود ہیں وہ دنیا کی ا?نکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔

مزیدخبریں