1947ء تا 2019ء تک کشمیرکی داستان الم

تقسیم ہند کے فارمولا سے انحراف کرتے ہوئے جب مہاراجہ کشمیر نے بھارت سے الحاق کا فیصلہ توکشمیر میں بغاوت پھوٹ پڑی۔کشمیری اور قبائل مجاہدین نے گلگت بلتستان سے لے کر بارہ مولہ تک آزاد کیا۔ کشمیری مجاہدین کی بے دریا فتوحات سے گھبرا کر مہاراجہ نے 26 اکتوبر 1947ء لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو خط لکھا جس کے جواب میں انہوں نے خط لکھا کہ ’’ہندوستان کے مسٹر وی پی مینن نے بتایا ہے کہ آپ نے الحاق ہندوستان کا فیصلہ کیا ہے۔ جو ہمارے آزادی ہند کے پالیسی کے پیش نظر متنازعہ ہے۔ ریاست جموں وکشمیر کے الحاق کا فیصلہ وہاں کے عوام کے خواہشات کے مطابق ہونا چاہئے۔
اس کے ساتھ ہی انڈیا کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے انگریز فوجی افسروں سے مل کر طے کیا کہ محمد علی جناح اور لیاقت علی خان اور پنڈت نہروکو لاہور میں بلا کر کانفرنس کی جائے تاکہ مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ نکالی جائے۔ معاملات طے ہوئے تو نہرو نے عین وقت پر بیماری کا بہانہ کیا یوں یہ کانفرنس نہ ہوسکی یکم نومبر 1947ء کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن پاکستان آئے قائداعظم سے ملے جنہوں نے کچھ تجاویز پیش کی جو انہوں نے بھارتی حکومت کے سامنے پیش کرنے کا کہا۔ اس دوران بھارت کشمیر میں اپنی فوجی پوزیشن مضبوط کرتا رہا اور یکم جنوری 1948ء کو خود ہی نہرو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پیش کرتے ہوئے الزام لگایا کہ پاکستان کشمیر پر حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ سلامتی کونسل نے 6 جنوری کو یہ مسئلہ ایجنڈا پر رکھا تو بھارت کی طرف سے کشمیر کے سابق وزیراعظم گوپال سوامی آھنگر اور شیخ عبداﷲ آئے پاکستان کی طرف سے محمد ظفر اﷲ خان کے ساتھ آزاد کشمیرکے صدر سردار محمد ابراہیم خان کو بھیجا گیا مگر ظفر اﷲ خان نے انہیں وفد میں شامل نہیں کیا۔ 
17 جنوری 1948ء کو سلامتی کونسل نے قرارداد منظور کی کہ دونوں ممالک انتہائی قدم ٹھانے سے گریز کریں۔ 30 جنوری 1948ء کو سلامتی کونسل نے 3 رکنی کمیشن مقرر کیا جنہوں نے سوچ و بچارکے بعد تصدیق کی کہ اس مسئلے کا واحد حل ’’ استصواب ہے۔7 مئی 1948ء کو اقوام متحدہ نے کمیشن تشکیل دیا۔ جس میں سلامتی کونسل نے بلیجیم ‘کولمبیا‘ بھارت کے چیکو سلوالیہ اور پاکستان کے ارجنٹائن کو منتخب کیا۔ ان سب نے مل کر امریکہ کو نامزد کیا۔ یہ کیمشن جولائی 1948ء تک کام کرتا رہا۔ 13 اگست 1948ء کو اس کمیشن نے قرارداد منظورکی کہ ’’ کشمیر میں لڑائی فوری بند کی جائے کمیشن فوجی مبصر مقرر کرے جو جنگ بندی کے حکم پر عمل کرے گا۔ دونوں حکومتوں بات چیت کے لئے ماحول سازگار نہیں۔یکم جنوری 1948ء کو رات بارہ بجے جنگ بندی پر عمل شروع ہوا۔ 26 اگست 1949ء کو ثالثی کے ذریعے رائے شماری کی تجویز دی۔ برطانیہ کے وزیراعظم ٹیلی اور امریکی صدر ٹرومین نے دونوں ممالک سے اپیل کی کہ وہ کمیشن کی تجویز مان لیں۔ پاکستان نے اسے منظورکیا اور بھارت نے مسترد ۔ سلامتی کونسل نے 20 مارچ 1951ء کو دونوں ملکوں کو ثالثی تسلیم کرنے کی تجویز دی جو پاکستان نے مان لی بھارت نے پھرمسترد کر دی۔
 فروری 1954ء میں شیخ عبداﷲ کی جگہ بھارت کے بخشی غلام محمد کو وزیراعلیٰ بنایا جس کی قیادت میں کشمیر کی نام نہاد اسمبلی بھارت سے الحاق کی قرارداد منظورکر لی۔ جس پر نہرو نے کہا ’’کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ اس کے باوجود 1957ء میں ثالثی پر عمل کی تجویزوں اور 21 فروری 1957ء کو سویڈن کے سفیر نے مذاکرات کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ اس دوران بھارت کی حمایت میں روس آ گیا۔ 1962ء میں روس نے کشمیر پر پہلی مرتبہ قرارداد ویٹو کی۔ 1962ء میں ہی چین اور بھارت میں جنگ چھڑتی تو بھارت نے صاف اعلان کیا کہ جموں کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے۔ 1963ء میں بھٹو سورن سنگھ مذاکرات ہوئے بے سود رے۔1965ء میں پاک بھارت جنگ 1966ء میں تاشقند معاہدہ ہوا اور مسئلہ کشمیر بات چیت سے حل پر زور دیا گیا۔ بھارت نے اس کا مطلب یہ لیا کہ مسئلہ کشمیر اب ختم ہوگیا۔1971ء میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد شملہ معاہدہ ہوا تو طے پایا دونوں ممالک مسئلہ کشمیر مل کر حل کریں گے عالمی سطح پر نہیں لے جائیں گے۔یوں تاشقند کے بعد مسئلہ کشمیر پر شملہ معاہدے کی شکل میں تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی گئی۔ مگر سب سے خطرناک کام جس نے مسئلہ کشمیرکی شکل ہی بگاڑ دی وہ بھارت نے یہ کیا کہ 5 اگست 2019ء کو بھارتی آئین میں موجودکشمیرکی خصوصی آئینی حیثیت دفعہ 370 کہلاتی ہے وہ اور ذیلی شق اے 35 کو پارلیمنٹ کے ذریعے ختم کرکے کشمیر کو مکمل آئینی طور پر بھارتی ریاست بنا دیا اور کشمیرکی آئینی متنازعہ یا خصوصی حیثیت ختم کر دی ہوں۔ اب کشمیری بھارتی شہری بن گئے۔ اس پر حیرت انگیز طور پر پاکستان نے وہ ردعمل نہیں دیا جو اس کا بطور فریق اس مسئلہ میں حق بناتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان عالمی سطح پر شدید ردعمل دیتا۔ خواہ اسکے لئے کنٹرول لائن پر جنگ کی نوبت ہی کیوں نہ آتی مگر افسوس یہ نہ ہو سکا۔
یوں 5 اگست 2019ء تاریخ کشمیر کا ایسا سیاہ دن بن گیا جس نے تاریخ کشمیر کو ایک بار پھر غلامی کے بدترین دور میں دھکیل دیا۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن