پنجاب کی تقسیم کا شوشہ

Aug 05, 2022

یہ سوال نہایت اہم او رغورطلب ہے کہ ہندو کانگریس کے ایماء پر سکھ رہنماؤں نے ایک دم پنجاب کی ونڈ (8؍1947ئ) مطالبہ کیوں کردیا؟ اس مطالبہ کے اگلے روز بنگال کی تقسیم کا مطالبہ بھی پنڈت نہرو نے پیش کر دیا۔ ان باتوں کا محرک کون سا خوف یا خدشہ تھا؟
٭20؍فروری1947ء کو وزیراعظم ایٹلی نے برطانوی پارلیمنٹ میں اعلان کیا تھا کہ جون 1947ء تک تاج برطانیہ ہندوستان پر اپنا سیاسی اختیار ختم کر دے گا۔ اس وقت یا تو اقتدار کسی قسم کی مرکزی حکومت کے سپرد کیا جائے گا یا موجود صوبائی حکومتوں کو الگ الگ سیاسی اقتدار منتقل کر دیا جائے گا۔ اُس وقت انتخابات کے نتیجہ میں ہر صوبہ میں منتخب اسمبلی قائم ہو چکی تھی جو اپنے دائرہ کار کے مطابق قانون سازی کرنے اور صوبے پر حکومت کرنے کی مجاز تھی۔
٭اس لمحہ بنگال میں سید حسین شہید سہروردی وزیراعظم تھے جبکہ پنجاب میں سر خضرحیات مخلوط حکومت کے سربراہ تھے۔
٭اس وقت دو اہم واقعات ہوئے اولاً یہ کہ سہروردی اور بنگال میں کانگریس کے صدر ہندوستان کی آزادی کے منصوبے کی تکمیل کے وقت علیحدہ آزاد بنگال کے تصور پر کام کررہے تھے اگرچہ گاندھی اس منصوبے کے خلاف تھے اور دوم یہ ہوا کہ خضر حکومت نے پنجاب میں مسلح تنظیموں پر پابندی کا حکم (24؍جنوری 1947ئ) جاری کیا۔ وہ خود دلّی گیا ہوا تھا۔ لاہور پولیس نے مسلم لیگ نیشنل گارڈ کے دفتر چھاپہ مارا۔ اس حملہ کی اطلاع مسلم لیگ کے صوبائی قائدین کو پہنچی جنہوں نے موقع پر آکر پولیس ایکشن کی  مزاحمت کی۔ نواب ممدوٹ، ممتاز دولتانہ سمیت آٹھ قائدین گرفتار ہوئے جس کے نتیجہ میں آناً فاناً پنجاب بھر میں زبردست احتجاجی تحریک شروع ہوگئی۔ روزانہ سینکڑوں گرفتاریاں ہونے لگیں۔ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے بھرپور طریقہ سے اس تحریک میں حصہ لیا اور ہر قسم کا سرکاری تشدد بھی برداشت کیا۔
٭کانگریس کو اس امر کا احساس تھا کہ 1946ء  میں تاجِ برطانیہ نے ہندوستان میں متعدد فوجی یونٹ توڑ کر اپنی عسکری قوت کو کمزور کر دیا ہے لہٰذا آئندہ برطانوی حکومت آئین اور مفاہمت و گفت و شنید کی پالیسی اختیار کرنے پر مجبور ہوگی۔ اس پس منظر میں وزیراعظم ایٹلی نے اعلان کیا تھا کہ تاجِ برطانیہ ہندوستان میں کسی ایسی آئین ساز اسمبلی سے منظور ہونے والے آئین کو جس میں ملک کے کسی بڑے طبقے کے نمائندے بھی شریک نہ ہوں، ملک کے ان حصوں پر نافذ کرنے کی پابند نہ ہوگی جس میں یہ آئین منظور نہیں ہوگا۔ وزیراعظم نے اس امر کا اظہار کیا کہ پرامن انتقال اقتدار کیلئے ہندوستان کی سیاسی جماعتوں کو کچھ نہ کچھ سمجھوتہ کرنا چاہئے۔
٭قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ 16؍1946ء کو کابینہ مشن (ہندوستانی آئینی مسئلہ حل کرنے کیلئے تاج برطانیہ کی طرف سے مارچ 1946 ء میں لارڈ پیتھک لارنس کی سربراہی میں بشمول سرسٹیفرڈ کرپس اور اے وی الیگزینڈر مشن مارچ 1946ء میں ہندوستان آیا۔) نے تمام سیاسی جماعتوں سے ملنے اور ان  سیاسی جماعتوں کا مؤقف سن کر تجویز کیا کہ
(الف)تین سطحی آئینی ڈھانچہ ہونا چاہئے: انڈین یونین جس میں برٹش انڈیا اور ریاستوں کے نمائندے شامل ہونگے۔ دفاع، امورخارجہ اور مواصلات کے تین محکمے مرکز کی تحویل میں ہونگے جبکہ یونین حکومت کو ٹیکس نافذ کرنے کا اختیار ہوگا۔
(ب)نچلی سطح پر صوبے ہوں گے جن کی تحویل میں باقی ماندہ اختیارات یعنی محکمے ہوں گے۔ صوبے اپنے گروپ بنا سکیں گے۔
(ج)دس برس کے بعد اگر کوئی صوبہ علیحدہ ہونا چاہئے تو انڈین یونین سے علیحدہ ہو سکے گا۔ گروپ اے میں مدراس، بمبئی، یوپی، سی پی، بہار، اڑیسہ ہوں گے (غیرمسلم اکثریتی علاقے) جبکہ گروپ بی میں صوبہ سرحد، سندھ اور پنجاب (مسلم اکثریتی علاقے) شامل ہونگے۔کابینہ مشن نے اگرچہ پاکستان کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا تھا لیکن ان کی تجویز کے مطابق مسلم اکثریتی صوبوں کی گروپنگ سے خودمختار پاکستان  کا تصور تسلیم ہو رہا تھا۔ اس وجہ سے 6؍جون 1946ء کو مسلم لیگ کونسل نے مشن کے منصوبہ کو تسلیم کر لیا۔اس موقع پر کانگریس میں ایک اہم تبدیلی ہوئی۔ ابوالکلام آزاد کی جگہ پنڈت نہرو کانگریس کے صدر بن گئے۔ انہوں نے سخت قسم کی بیان بازی شروع کردی اور کابینہ مشن کی تجاویز کو تبدیل کرنے کا اشارہ دیا کیونکہ اس تجویز میں اُسے پاکستان کا تصور نظر آرہا تھا۔
٭برطانوی وزیراعظم نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ صوبائی حکومتوں کو اختیار منتقل کیا جاسکتا ہے۔ 1946ء کے انتخابات یہ واضح اشارہ کررہے تھے کہ خودمختار صوبوں کو تاج برطانیہ سیاسی اقتدار منتقل کر سکتی ہے۔ اس پس منظر میں کانگریس کو نظر آرہا تھا کہ متحدہ پنجاب اگر پاکستان میں شامل ہو تو پاکستان بہت مضبوط ہو جائے گا کیونکہ کشمیر اور بیکانیر بھی لازم اسی ملک کا حصہ بنے گا کیونکہ پانی کے سرچشمے انہی جگہوں پر تھے۔
اس لئے ضروری تھا کہ مسلم اور سکھ اتحاد کو ناممکن بنایا جائے۔ اس کے لئے ترکیب یہ نکالی گئی کہ راولپنڈی ڈویژن میں ماسٹر تارا سنگھ اور کچھ اور سکھ قائدین کے خاندانوں کو ہلاک کر کے فرقہ ورانہ فساد کی فضا پیدا کردی جائے۔ ایسا ہی ہوا جس کے ردعمل میں مشرقی پنجاب اور لاہور ملتان میں فسادات برپا ہوئے اور آن کی آن میں پنجاب فرقہ ورانہ لہر کا شکار ہوگیا۔
٭مسلم سکھ تضاد بدقسمتی سے تاریخی حقیقت تھی۔ ایک طرف معاشی فرق تھا اور دوسری طرف نئے نہری نظام کے تحت سکھ قوم زیادہ مضبوط ہو چکی تھی۔ سکھ ساہوکاروں سے مسلمان قرضے لینے لگے۔ گورو ارجن سنگھ مغل بادشاہ جہانگیر کے حکم سے مارے گئے تھے۔ یہ زخم سکھ روایات میں ہر سال زندہ رکھا جاتا۔ (جاری) 

مزیدخبریں