مادرِملت اور مجید نظامی

Aug 05, 2022

مادرِ ملت فاطمہ جناح ایک عظیم ہستی جس نے اپنی ذات، آرام اور آسائش کو تج دیا۔ ڈٹ کر قائد اعظم کے ساتھ کھڑی رہیں کیونکہ سامنے ایک عظیم مقصد تھا ۔ اعلیٰ و ارفع عزائم کی تکمیل کی منزل تھی پھر وہ مقصد حاصل ہو گیا یعنی پاکستان کا حصول۔ عورت اگر اپنی طاقت پہچان لے بدی کی بیخ کنی کا ارادہ کر لے تو پھر وہ ناکام نہیں رہتی۔ لمحۂ حاضر میں وطن عزیز میں جو مسائل، اخلاقی گراوٹ کی بدترین صورت پیدا ہو چکی ہے۔ دن نہ رات کی تمیز رہی نوجوان بچوں بچیوں کے ساتھ کھلے عام ہوتے مظالم صرف عورت ہی روک سکتی ہے۔ ہماری پہچان، ہماری رول ماڈل حضرت خدیجہ، ؓ حضرت عائشہ صدیقہؓ ، حضرت بی بی فاطمہؓ اور مادرِ ملت ہونی چاہئیں۔ یہ وہ عالی مرتبت، عالی مقام برگزیدہ ذات نفوس ہیں کہ جانثاری ، وفاداری ، محنت، دیانت کی داستانیں لکھنے بیٹھیں تو کاغذ کم پڑ جائیں ۔ 
ریاست مدینہ الفاظ کا مجموعہ نہیں ۔ عملی اقدامات، ذات کی قربانی، انا، ضد، خود پسندی کو تج دینے کا نام ہے۔ کوئی اندھا ہے یا آنکھوں والا، کوئی سائیکل سوار ہے یا پراڈو والا، سبھی ریاست کی نظر میں برابر ہونے کا نام ریاست مدینہ ہے۔ ہم ہر دن بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں مگر بھول جاتے ہیں کہ دن صرف ایک ہوتا ہے ، تقریب چند گھنٹوں کی ہوتی ہے ۔ اصل مقصد یہ ہے کہ جس ہستی کی یاد منا رہے ہیں ان کے اصول، قواعد،  فرامین پر ہم کتنا عمل درآمد کا اہتمام کرتے ہیں ۔ دن منانے سے نہیں، بینر لگانے سے نہیں۔ ان اصولوں، نشانِ عمل کی پیروی سے منزل حاصل ہوتی ہے جن پر مل کر متذکرہ بالا مقدس ذات بابرکات نفوس قدسیہ ٹھہریں۔ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ جو لوگ ہماری خاطر زمانے کی سختیاں برداشت کر گئے ۔ ذاتی جاہ، آرام کو تج کر ہمارے سکون، آرام کی منزل کے حصول میں سرگرداں رہے ۔ ان کی سرکاری سطح پر قابل ذکر پذیرائی اعتراف خدمات کا کوئی اعلان سننے کو نہیں ملا ۔ خاموشی سے مادر ملت کا یوم پیدائش گزر گیا ۔ عظیم قائد کی عظیم بہن کی یاد میں حکومت کو میڈلز جاری کرنا چاہئیں ۔ قبر مبارک پر جانا چاہیے۔
انتہائی اہم فورم پر ایک پروقار، باسعادت تقریب کے بعد چائے پر رسمی گفتگو کے دوران ادارے کی سربراہی پر بات چل پڑی۔ ادارے کے روح رواں بتانا شروع ہو گئے کہ مالیاتی امور کو کنٹرول کرنے کا نظام اتنا کڑا بنا دیا ہے کہ کوئی آسانی سے ہیرا پھیری نہیں کر سکتا۔ مزید براں، ہمیشہ سٹاف کو باور کرواتا رہتا ہوں کہ ہم سب امانت کے رکھوالے ہیں اس لیے کبھی بھی کوئی غلطی نہ کرنا۔ کہنے لگے کہ لوگوں کے اصرار کے باوجود سربراہی نہیں سنبھالی۔ میری خواہش ہے کہ کسی بڑے نام کو چن لیں ۔ تب مجھ سے رہا نہ گیا ۔
 میرا سوال تھا کہ دیانتداری کا اتنا مثالی نظام نافذ کرنے کے بعد اگر کوئی کرپٹ شخص مسلط ہوگیا تو آپ کچھ بھی نہیں کر سکیں گے، سب مشق، محنت اکارت جائے گی ۔ ضروری نہیں بڑا نام دیانتدار ہو۔ در حقیقت صاحب کردار لوگ ہی بڑا نام ہوتے ہیں۔ نام نہیں کردار کا خالص ہونا ضروری ہے۔سچ یہ ہے کہ خیراتی ادارہ ہو یا ملک سب کو چلانے کے لیے بھرے ہوئے پیٹ والے لوگوں کی ضرورت ہے۔ بھوکا اور لالچی پیٹ تو اپنی ذات سے آگے نہ دیکھتا ہے نہ سوچتا ہے وہ کسی کا فائدہ کیا دیکھے گا؟
لمحۂ موجود میں ہمارے اردگرد کتنے ہی بڑے نام بڑی گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں ۔ کاغذ پکڑ کر لسٹ بنائیں ۔ جب مکمل ہو جائے تو یہ دیکھیں کہ کس نے کیا کام کیا ؟ شاذ ہی دانہ خالص نکلے گا۔ گندے پانی کے نکاسی کی نالی بنانے سے لے کر سٹرکیں بنانے تک ۔ کتنے لوگوں نے دوزخ کی آگ پکڑی اور کتنے لوگوں نے ابدی ہدایت کا راستہ چنا ۔ تعین کرنا بہت مشکل ہے جس ملک میں زکوٰۃ، صدقات، خیرات سے چلنے والے اداروں کو لوگ تاحیات ذاتی ملکیت سمجھ کر ناگزیر بن جائیں۔ اپنی پسند کو سامنے رکھ کر میرٹ کا قتل کریں اور شرمندہ بھی نہ ہوں وہاں؟ کیا کچھ نہیں ہوتا اس لبادے میں کیا ہم غافل ہیں ؟ ہرگز نہیں۔ ہم صرف طاقتور کی غلامی کے نشہ، حصار سے نکلنا نہیں چاہتے۔ کوئی کتنا زور لگالے یہ اٹل حقیقت ہے کہ نا گزیر کوئی بھی نہیں ۔ ریٹرن ٹکٹ طے ہے ایک ساعت بھی ادھر ادھر نہیں ہوسکتی۔ اس کے باوجود آج جو ملک کے حالات ہیں ۔ سوچیے آج آبروئے صحافت قبلہ مجید نظامی زندہ ہوتے تو اتنی تباہی تماشوں پر خاموش رہتے؟ کیا وہ بھی زبردستی کے جبر،سیاسی انارکی، معاشی تباہی کی بدترین حالت پر خاموشی اختیار کرتے؟ یقینا نہیں ۔ صاحب کردار ہی بڑا نام ہوتا ہے اور زندہ وہی رہتے ہیں جو صاحب ایمان ہوتے ہیں ۔ دلی شفافیت کے حامل دلوں میں بنتے ہیں چاہے صدیاں بیت جائیں ہر موجود زمانہ ۔لوگ ایسے لوگوں کی دل سے یاد مناتے ہیں ۔
پاکستان میں آئین کی بالادستی اور جمہوریت کی بحالی و سر بلندی کا باب ڈاکٹر حمید نظامی کے بغیر نا مکمل ہے ۔ رمضان المبار ک کی 27 ویں شب کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور اسی مبارک شب قدر کو مجید نظامی فخرِ پاکستان کا انتقال پر ملال۔ اسلام، پاکستان اور اللہ تعالی سے گہری محبت، بھروسے کا بہت بڑا ثبوت ہے ۔ محافظِ نظریہ پاکستان نے دو قومی نظریے کی آبیاری، فروغ کے لیے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ اور ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان جیسے عظیم الشان ادارے قائم کیے۔ اس وقت سیاست سے ہٹ کر جو سیلابی پانی کے تباہ کن مناظر دکھائی دے رہے ہیں ۔ جون سے جاری بارشوں کا سلسلہ رکنے کی بجائے بڑھتا رہا مگر کسی نے دھیان نہیں دیا۔ پہلے نشیبی علاقے ڈوبے پھر مرکزی شاہراہیں اور بڑے شہر سمندر کا منظر پیش کرنے لگے۔ کچھ سال پہلے والا سیلاب تو اب کی مرتبہ والے کے مقابلہ میں صفر بھی نہیں ۔ ہوا کیا؟ خوب ڈوبنے دیا گیا اور اب ؟ تشہیر، فوٹو شوٹ نے تو خیرات کا تقدس بھی پامال کر کے رکھ دیاہے۔

مزیدخبریں