سیاسی قیادت کی کوتاہ اندیشی اور عوام 

ہمارے سیاسی قائدین کتنے کوتاہ اندیش ہیں کہ معمولی چیزوں اور معمولی واقعات پر پوری توجہ مرکوز رکھتے ہیں مگر عام آدمی کی زندگی پر کوئی توجہ ہی نہیں کہ وہ کس اذیت میں زندگی کے دن بسر کر رہا ہے۔ قوم شخصیات سے محبت یا پھر نفرت میں اس حد تک جا چکی ہے کہ ایک گروہ کیلئے کوئی نجات دہندہ ہے تو دوسرے کیلئے وہی سارے کے سارے مسائل کی وجہ۔ رہا مسئلہ پسے ہوئے غریب عوام کا تو وہ اس صورتحال سے لاتعلق ہو کر براہ راست اللہ سے شکوے شکایات کر رہے ہیں اور اسی سے رجوع کئے ہوئے ہے۔ وہ سمجھ چکے ہیں کہ ان کیلئے کسی نے کچھ نہیں کرنا اور وہ دن رات اللہ کو پکار رہے ہیں ۔ مجھے ایک شخص نے چند روز قبل بتایا کہ اس کی بستی جو بلوچستان کے ضلع آواران میں واقع ہے، تباہ ہو چکی ہے اور امداد نام کی کوئی چیز نہیں۔ لوگ تہجد کے وقت اٹھ کر اللہ سے مدد کیلئے اذانیں دے رہے ہیں اور ہر روز اللہ سے مداخلت کی دعا کرتے ہیں۔ اس بستی میں رہنے و الے ایک بزرگ نے انہیں اس طرف لگا دیا ہے کہ اپنی تما م تر اپیلیں سب سے بڑی عدالت کے روبرو دائر کردو اور یہ تمام درخواستیں صرف اور صرف تہجد کے وقت دو جب اللہ پاک آسمان دنیا پر آ کر کہتاہے کہ ہے کوئی مانگنے والا کہ میں اسے دوں۔ ہے کوئی سوال کرنے والا کہ اس کے سوال کا جواب دوں۔ بے کس اور مجبور افراد نے تہجد کے وقت کا انتخاب کرکے ہر طرف سے مایوس اور لاتعلق ہوکر کئی ہفتوں سے اس اللہ سے رجوع کر رکھا ہے کہ جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔
 وہ جو روحانی حوالے سے معاملات سے آگاہی رکھتے ہیں اب اس پر متفق ہیں کہ اللہ نے اذیت میں گھری امت کی سن لی ہے اور اب اللہ پاک کے فیصلے مسلط ہونگے جس کا پہلا مرحلہ شروع ہے۔ اس مرحلے میں پاکستان کا نقصان کرنے والے سارے کردار اسی طرح سے بے نقاب ہوں گے جس طرح زمین قرب قیامت میں اپنے تمام خزانے ظاہر کرتی جا رہی ہے۔ بالکل اسی طرح اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے والے اور اسے لوٹنے والے تمام چہرے بے نقاب ہوں گے اور جب مشیت ایزدی حرکت میں آتی ہے تو پھر دنیا دیکھتی ہے کہ مکے لہرانے والے اپنا ناخن بھی نہیں ہلا سکتے اور بڑے بڑے قلعے بنا کر اپنے اردگرد کے حصار کو مضبوط تر کرنے والے گیراجوں اور اصطبلوں میں ’’کوئے یار میں دو گز زمیں کی حسرت‘‘ لئے دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں۔
 اقتدار اور عہدے انجوائے کرنیوالوں کو یہ احساس نہیں کہ اصل میں تو یہ پیغام ان ہی کیلئے ہے کہ مکے لہرانے والا چند ہی سالوں میں ہاتھ کی انگلیوں اور آنکھوں کے پیوٹوں کو بھی نہیں ہلا سکتا نہ دولت اسکے کام آ رہی اور نہ ہی دنیا بھر کی طبی سہولیات، کہ عروج دینے والے نے واپسی کا سفر شروع کروا دیا ہے اور ادھار کی عطا کردہ طاقت واپس چھین لی ہے تو پھر لوگ سمجھتے کیوں نہیں۔ لاہور کے معروف کینسر ہسپتال میں چوتھی سٹیج کے کینسر میں مبتلا ایک امیر کبیر عورت پانچ پانچ ہزار کے نوٹوں کا بھرا دو پہیوں والا بیگ گھسیٹتی ہوئی لائی۔ طبی ماہرین نے کہا کہ ان کو چوتھی سٹیج کا کینسر ہے اور اس مرحلے پر ہم یہ کیس نہیں لے سکتے۔ اس کا علاج ناممکن اور وقت و پیسے کا ضیاع ہے۔ ابتدائی سٹیج ہوتی تو ہم اس کیس کو ڈیل کر لیتے مگر مذکورہ مریضہ کو تو پتہ ہی تب چلا جب مرض اپنی آخری سٹیج کو پہنچ چکا تھا پھر لوگوں نے دیکھا کہ اس نے چیختے چلاتے ہوئے نوٹوں سے بھرا بکس وہیں گرا دیا کہ جو نوٹ اسے زندگی نہیں دے سکتے وہ کس کام کے۔ سیاست میں یہ آخری نوٹ تھے جو چل گئے اور کہتے ہیں کہ پیرانہ سالی میں چوہدری شجاعت حسین نے بھی آخری قیمتی سجدوں میں سے ایک سجدہ اربوں روپوں کے روبرو کر دیا ہے مگر اب پاکستان تبدیل ہو رہا ہے اور خبر یہ ہے کہ موجودہ حکومتی اتحاد سے متعدد اراکین اسمبلی صرف اس اکلوتی شرط پر قومی اسمبلی میں تبدیلی لانے کو تیار ہیں کہ پی ٹی آئی انہیں آئندہ الیکشن میں صرف ٹکٹ دینے کا وعدہ کر لے۔ ایسے حلقے بھی موجود ہیں جہاں پی ٹی آئی کے امیدوار کمزور ہیں اور ان حلقوں میں کامیاب ایم این اے حضرات بھی عوامی ردعمل کو دیکھتے ہوئے اس تبدیلی کا حصہ بننے کیلئے تیار ہیں مگر عمران خان نہیں مان رہے کہ شاید اب عوامی خواہشات کے خلاف کوئی بھی فیصلہ عمران خان کے بس میں بھی نہیں رہا کیونکہ عوام اپنا ذہن بنا چکے ہیں اور عوامی ردعمل کے سامنے ساری دیواریں ریت ہی کی ثابت ہو رہی ہیں۔ میں ایسے چند ممبران اسمبلی کو جانتا ہوں جو اس صورتحال میں شدید دباو کا شکار ہیں اور جان چکے ہیں کہ جس برادری ازم مذہبی منافرت گروہ بندی اور جوڑ توڑ کی سیاست کر کے انہوں نے کم از کم پانچ دہائیوں تک اس قوم کے ساتھ کھلواڑ کیا وہ مزید چلتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی کہ عوام کی غالب اکثریت اس سارے کھیل کو رد کر چکی ہے۔ 
جو سالہا سال سے یہ سمجھتے تھے کہ لوٹ مار کرکے ہضم شدہ ملکی دولت اب واپس نہیں آ سکتی تو آج ان کا حال یہ ہے کہ گھروں سے باہر نکلنا محال ہو چکا ہے ایک دوست بتا رہے تھے کہ بیرون ممالک میں مقیم بعض ایسے لوگ جن میں سیاست دان ہی نہیں بیوروکریٹ بھی شامل ہیں، ان کی آزادیاں چھن چکی ہیں۔ ان کو اور ان کی اولادوں کو وہاں کی مقامی کمیونٹی کی طرف سے بھی شدید نفرت کا سامنا ہے اور ان میں ایسے بھی ہیں جنہیں تقریبات میں مدعو کرنا بھی لوگوں نے چھوڑ دیا ہے ۔
چھپے خزانے اگلنے کا وقت ہوا چاہتا ہے یورپ کی ایک یونیورسٹی میں ایک پاکستانی طالب علم نے گروپ ڈسکشن کے دوران کرپشن کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے اپنی ہی کلاس کے پاکستانی ہم جماعت کے والد کو اتنا رگڑا دیا کہ وہ طالب علم کئی دن سے یونیورسٹی ہی نہ آ سکا۔ مذکورہ طالب علم نے کہا کہ میں نے تو چھٹیوں میں فروٹ فارم پر نوکری کی اور روزانہ دو گھنٹے سروس بوائے کے طور پر کام کرتا ہوں اس کا والد جتنی تنخواہ لیتا ہے اس سے تو بیرون ملک آنے کا کرایہ نہیں دیا جا سکتا، اس نے فیس کہاں سے دی۔ یہ وہ تبدیلی ہے جو پاکستان سے شروع ہو کر دنیا بھر کے پاکستانیوں تک پہنچ چکی ہے۔

ای پیپر دی نیشن