الیکشن بروقت یا تاخیر؟مشترکہ مفادات کونسل اجلاس آج 

اسلام آباد (نامہ نگار+ خبر نگار خصوصی) وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اتحادی جماعتوں کے ویڈیو لنک اجلاس میں اسمبلیوں کی تحلیل 9 اگست کو کرنے پر تمام رہنماﺅں نے اتفاق کر لیا ہے۔ نگران وزیر اعظم کی تقرری کے معاملے پر وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اتحادیوں کے ویڈیو لنک اجلاس میں 4 نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا۔ اتحادی جماعتوں کے درمیان نگران وزیراعظم، نئی مردم شماری، ضمنی انتخابات اور اسمبلیوں کی تحلیل پر مشاورت ہوئی۔ ذرائع کے مطابق اتحادی جماعتوں کے رہنماﺅں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ الیکشن وقت پر ہونے چاہئیں، مردم شماری کے معاملے پر مشترکہ مفادات کونسل جو فیصلہ دے گی قبول ہوگا۔ ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں عام انتخابات کا معاملہ نگران حکومت پر ڈال دیا گیا، شرکاءکا کہنا تھا کہ نگران حکومت آئندہ کے عام انتخابات کے معاملات کو خود دیکھ لے گی۔ اجلاس میں نگران وزیر اعظم کے انتخاب کے معاملہ کو وزیراعظم کا استحقاق قرار دیدیا گیا۔ اتحادیوں نے رائے دی کہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر آپس میں مشاورت سے نگران وزیراعظم کا انتخاب کرلیں۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں مشاورت کے بعد اتحادی جماعتوں نے شاہد خاقان عباسی ، حفیظ شیخ، فواد حسن فواد، اسلم بھوتانی اور ذوالفقار مگسی سمیت متعدد نام پیش کیے۔ اجلاس میں بلوچستان سے جسٹس ریٹائرڈ شکیل بلوچ کا نام نگران وزیر اعظم کیلئے تجویز کیا گیا۔ نگران وزیراعظم کیلئے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کا نام بھی زیر غور آیا جبکہ ایم کیو ایم نے نگران وزیراعظم کے نام پر مزید مشاورت کیلئے وقت مانگ لیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے نگران وزیراعظم سے متعلق اتحادیوں سے تجاویز مانگ لی گئی ہیں۔ دوسری جانب قائد حزب اختلاف راجہ ریاض کا کہنا ہے کہ 8 یا 9 اگست کو مشاورت ہوگی، امید ہے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ متحدہ قومی موومنٹ ایم کیو ایم پاکستان نے نگران وزیراعظم کیلئے گورنر سندھ کامران ٹیسوری کا نام دینے پر بھی غور کیا ہے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف سے مشیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ نے ملاقات کی۔ ملاقات میں قمر زمان کائرہ نے وزیراعظم کو 5 اگست کو یوم استحصال کشمیر کے موقع پر منعقد ہونے والی سرگرمیوں، سیمینار اور آگاہی مہمات بالخصوص دنیا بھر میں پاکستان کے سفارتخانوں میں اس حوالے سے آگاہی پیدا کرنے کیلئے تقاریب کے حوالے سے آگاہ کیا۔ وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے یوم استحصال 5 اگست کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ آج بھارت کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو یکطرفہ اور غیر قانونی طور پر منسوخ کیے چار سال گزر چکے ہیں۔ تب سے بھارت نے کشمیری عوام کو دبانے کے لیے طاقت اور تشدد کے وحشیانہ استعمال کا سہارا لیا ہے۔ بھارت نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو کمزور کرنے کے لیے کشمیری آبادی میں تبدیلیاں لانے کی کوشش کی ہے۔ لاکھوں غیر کشمیریوں کو جعلی ڈومیسائل جاری کیے ہیں۔ یہ تمام اقدامات کشمیر کی آبادی اور سیاسی منظر نامے کو تبدیل کرنے کی سوچی سمجھی حکمت عملی کے جزو ہیں۔ پاکستان ایسے تمام یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کو یکسر مسترد کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر پر وحشیانہ قبضہ نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ بنیادی انسانی حقوق کے عالمی سطح پر تسلیم شدہ اصولوں کی بھی تضحیک ہے۔ بھارت کشمیر میں ظلم و ستم جاری رکھے ہوئے ہے، اس مسئلے پر عالمی برادری کو مزید خاموش نہیں رہنا چاہئے۔ پاکستان ان بہادر کشمیری مردوں اور خواتین کو سلام پیش کرتا ہے اور انہیں بھارتی تسلط سے آزادی کی جد وجہد میں اپنی مسلسل حمایت کا یقین دلاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما منظور وسان نے کہا کہ موجودہ حکومت بدھ کو ختم ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ نگران سیٹ اپ 2024ءسے آگے بھی جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیکرٹ ایکٹ عوام کے مفاد میں نہیں۔ ایسا بل نہیں ہونا چاہئے جس سے عوام متاثر ہو۔ منظور وسان نے کہا کہ جی ڈی اے ٹوٹ چکی، بچے ہوئے لوگ پیپلز پارٹی میں یا ن لیگ میں ہوں گے۔

اسلام آباد (عترت جعفری) وزیراعظم کی صدارت میں مشترکہ مفادات کی کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں نئی مردم شماری کی منظوری ایجنڈا کا حصہ ہے۔ مشترکہ مفادات کی کونسل نے اگر نئی مردم شماری کو منظور کر لیا، اور وفاقی حکومت نے بعد میں اس کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا، تو قومی اسمبلی توڑنے کے 90 دن کے اندر قومی الیکشن کے انعقاد پر سوالیہ نشان پیدا ہو جائے گا۔ زمین پر موجود شواہد‘ خدشات کو تقویت دے رہے ہیں کہ قومی الیکشن کا انعقاد مقررہ آئینی میعاد کے اندر ممکن نہیں۔ مشترکہ مفادات کی کونسل کا اجلاس آج ہوگا جس کی صدارت وزیراعظم کریں گے۔ اس میں وزیراعلیٰ بلوچستان، وزیراعلیٰ کے پی کے، وزیراعلیٰ پنجاب ، وزیراعلیٰ سندھ ، وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وفاقی وزیر تجارت سید نوید قمر اور وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق شریک ہوں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر مشترکہ مفادات کی کونسل نئی مردم شماری کی منظوری دے دیتی ہے تو حلقہ بندی کی میعاد کا شمار گزٹ نوٹیفکیشن کی تاریخ سے ہو گا۔ وفاقی حکومت مردم شماری کی منظوری کا گزٹ نوٹیفکیشن نہ کرے تو پھر 90 دن کے اندر الیکشن ہو سکیں گے، جیسا کہ یہ بتایا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کو توڑنے کے لیے سیاسی قیادت میں9 اگست کی تاریخ پر اتفاق ہو گیا ہے، اس صورت میں سات نومبر تک قومی الیکشن کا انعقاد ضروری ہے۔ مشترکہ مفادات کی کونسل کی طرف سے نئی مردم شماری کی منظوری اور وفاقی حکومت کی طرف سے گزٹ نوٹیفکیشن کے اجراء کے بعد الیکشن کمیشن اس بات کا پابند ہے کہ وہ نئی حلقہ بندیا ں 30روز میںکرے، یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ نئی مردم شماری جس کا عمل مکمل ہو چکا ہے، متنازعہ رہی ہے، صوبہ سندھ اور مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس پر اعتراضات سامنے آئے، نئی مردم شماری کے نتائج کو قبول کرنے کا انحصار ان چاروں صوبوں اور وزراءاعلی کے مردم شماری کے حق میں ووٹ سے ہوگا۔ الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد نے رابطہ پر بتایا کہ اگر مردم شماری منظور ہو جاتی ہے اور اس کا گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری ہو جاتا ہے تو الیکشن ایکٹ کی سیکشن 61 کی سب سیکشن 5 کے تحت ازسر نو حلقہ بندیا ں کرنا الیکشن کمیشن کی آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے، اس عمل کو مکمل کرنے میں چار سے چھ مہینے لگ سکتے ہیں، کیونکہ الیکشن کمیشن حلقہ بندیاں کرے گا اور اگر کسی کو اس پر اعتراض ہو تو پہلی اپیل الیکشن کمیشن کے پاس جائے گی اور اس کے فیصلے کے بعد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فورم بھی دستیاب ہیں جہاں پر لوگ اپنی درخواستیں لے کر جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زمینی حقائق کو دیکھنا ہوتا ہے، الیکشن نومبر کی بجائے فروری یا مارچ کے آغاز میں ممکن ہو سکیں گے، وہ بھی اس صورت میں کہ تمام حلقہ بندیوں کا عمل اور دیگر تیاریاں ہو جائیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قانون میں بیان کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن حلقہ بندی کی تجاویز پر 30روز میں فیصلہ کرے گا، قانون میں کہا گیا اگر ای سی پی حد بندی کی تجاویز کو قبول نہیں کرتا ہے، تو اسے اپنے فیصلے کی تحریری وضاحت فراہم کرنی ہوگی۔ حلقوں کی حد بندی ایک پیچیدہ عمل ہے۔ انتخابی کے قانون کے ماہر حسن صدیقی نے کہا کہ حلقہ بندی کا عمل اکثر متنازعہ ہوتا ہے، کیونکہ یہ انتخابات کے نتائج کو متاثر کر سکتا ہے۔ موجودہ نظام سیاسی مداخلت کا بہت زیادہ شکار ہے، سیکشن 125 (1) کے تحت اگر الیکشن کمیشن حد بندی کی تجاویز کو قبول نہیں کرتا ہے، تو وہ اپنے فیصلے کی تحریری وضاحت کرے گا، ای سی پی کو حد بندی کے عمل کے دوران سٹیک ہولڈرز، جیسے سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں سے بھی مشورہ کرنے کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن