سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو انٹرنیشنل ہیومن ایوارڈ مل گیا

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو اے بی اے انٹر نیشنل ہیومین رائٹس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس سلسلے میں کولوریڈو کنونشن سینٹر امریکہ میں ایورڈ دینے کی تقریب ہوئی جس میں جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی نے ایورڈ وصول کیا۔ امریکن بار ایسوسی ایشن کے صدر ڈیبوراہ ایکسن راس نے پاکستان کے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے ایوارڈ سے نوازا۔ اس موقع پر صدر امریکن ایسوسی ایشن بار کا کہنا تھا کہ جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کو یہ ایوارڈ بحران کے دور میں سیاسی مصلحتوں سے بے خوف ہوکر جرات مندانہ فیصلے کرنے اور عدالتی آزادی کے دفاع میں دیا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس ایوارڈ کے اجرا کا سلسلہ امریکا سے باہر انسانی حقوق کی ترقی، فروغ اور تحفظ کیلئے غیر معمولی کردار ادا کرنے والے وکیلوں ، انسانی حقوق کے علمبرداروں کے اعزاز میں کیا گیا تھا۔ ایوارڈ لینے کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ 2023ءکا اے بی اے ہیومن رائٹس ایوارڈ جمہوریت، مذہبی آزادی، برداشت، قانون کی حکمرانی، انسانی وقار کی مشترکہ اقدار کی علامت ہے۔ لیکن یہ اقدار آج بہت زیادہ خطرے میں ہیں۔ ایمان نے ایک عظیم تاریخی قوت کو ثابت کیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں جہاں کبھی لوگ جنگ میں تھے۔ کہ ایمان لوگوں کو ایک دوسرے کی مدد، بھوکوں کو کھانا کھلانے، غریبوں کی دیکھ بھال کرنا، بیماروں کو تشفی دینے کی ترغیب کا باعث بنا، لیکن ہم فرقہ وارانہ فسادات بھی دیکھتے ہیں۔ نائیجیریا میں مسلمانوں اور عیسائیوں کا قتل، افریقی جمہوریہ میں مذہبی جنگ موجود ہے۔ ہندوستان کے بعض حصوں اور خاص طور پر کشمیر اور منی پور میں مسلمانوں اور عسائیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دنیا کے تقریباً تمام حصوں میں مختلف درجوں کی انتہا پسندی موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتہا پسندی نئی نہیں ہے۔ انسانوں نے ان کا سامنا کیا ہے مگر کوئی امر قتل کا جواز نہیں بنایا جا سکتا بلکہ تمام مذاہب کا حکم ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ وہی برتاﺅ کریں جو اپنے لئے چاہتے ہیں۔ یہی تورات، بائبل اور حضورﷺ کا پیغام ہے۔ انہوں نے کہا کہ جدید جمہوریتوں میں، مسابقتی دعوے بعض اوقات امتیازی سلوک کا باعث بنتے ہیں۔ علیحدگی، اور تشدد۔ یہ کارروائیاں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔ ایسے حالات میں عدلیہ کو مزید کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میری قوم تشدد، انتہا پسندی اور نفرت کے دور رس نیٹ ورک کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ ہمیں بیک وقت ظاہر اور پوشیدہ دشمنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس جنگ کے دوران پاکستان کے شہر پشاور میں ایک چرچ کو بم کا نشانہ بنایا گیا۔ جس کے دوران 81 عیسائی اس وقت ہلاک ہوئے جب وہ عبادت کر رہے تھے اور بہت سے زخمی ہوئے۔ مہینے گزر گئے لیکن نہ مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا گیا اور نہ ہی متاثرین کو کوئی معاوضہ ملا۔ انہوں نے اس کا بطور چیف جسٹس سو موٹو نوٹس لیا۔ اس کے علاوہ ایک دوسری خبر کا نوٹس لیا کہ شمالی پاکستان میں کالاش قبیلے نے الزام لگایا کہ انہیں مذہب بدلنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کو تشدد اور موت کا نشانہ بنایا جائے گا۔ میں نے متعلقہ ریاستی عہدیداروں اور پاکستان میں مختلف مذہبی اور نسلی گروہوں کے نمائندوں کو نوٹس جاری کیا۔ اس کی متعدد سماعتیں ہوئیں جن کے بعد میں نے ایک تفصیلی فیصلہ تحریر کیا جس کا آغاز حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متاثر کن فرمان سے کیا اور قرار دیا کہ مذہب کی آزادی ایک جامع اصطلاح ہے جس میں ضمیر کی آزادی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے از خود نوٹس لیا کیونکہ میرا خیال تھا کہ پاکستان میں اقلیتیں، معاشرے کا ایک کمزور طبقہ ہیں، کہ جمہوریت میں سپریم کورٹ کو لوگوں کے آئینی حقوق، لبرل اقدار، اداروں اور افراد کا تحفظ کرنا ہے۔ سپریم کورٹ نے ریاست کو سات ہدایات جاری کیں جن میںمذہبی رواداری کے فروغ کے لیے ٹاسک فورس کی تشکیل، سکولوں اور کالجوں میں مناسب نصاب کی فراہمی، نفرت انگیز تقریر کا خاتمہ وغیرہ شامل تھیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ صرف عدلیہ ایک ایسا معاشرہ بنانے جہاں حقوق کا احترام ہو، جہاں رواداری ہو، کافی نہیں ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کوکردار ادا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ امریکن بار ایسوسی ایشن کے 'رول آف لاء انشی ایٹو' کے وژن سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ دنیا بھر کے ممالک اس سے بہت فائدہ اٹھائیں گے۔ خیال رہے کہ تصدق حسین جیلانی نے 2013 سے 2014 تک پاکستان کے 21 ویں چیف جسٹس کے طور پر خدمات انجام دیں۔

ای پیپر دی نیشن