بھارت کے کشمیر میں لگائے گئے کرفیو کو 371 دن گزر چکے ہیں۔مجھے کشمیر کے متعلق کچھ لکھنے کیلئے کسی لفاظی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کشمیر سے میرا محبت کا ایک ایسا رشتہ ہے جو کبھی لفظوں کا محتاج نہیں رہا۔ پچھلے کئی سالوں میں کشمیر پہ کئی دفعہ قلم اٹھایا وہاں پہ لوگوں پہ ڈھائے جانیوالے مظالم دنیا کے سامنے رکھے ، ان کے حق کی بات کی ، انکی آزادی کیلئے آوا ز اٹھائی،لیکن آج پہلی بار کشمیر پہ لکھتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں اور آنکھیں اشکوں سے لبریز ہیں۔ 5 اگست 2019کو آرٹیکل 370کے نفاذ کے بعدسے لے کر آج تک مقبوضہ وادی لاک ڈاﺅن کی زد میں ہے اور ہم پچھلے ستر سال سے کشمیر کی محبت کا دم بھرتے رہے اور جب آزمائش کا وقت آیا تو اس طرح بیگانہ ہو گئے جیسے کبھی آشنا ہی نہ تھے کچھ تقریروں ، ٹی وی پروگراموں اور چند ہفتے آدھا گھنٹہ کھڑے ہو کے سمجھا کہ کشمیر سے محبت کا حق ادا ہو گیا۔ ایک اور پانچ فروری ، ایک اور یوم کشمیر ، ایک اور چھٹی کا دن آ پہنچا ہے ، جانے اس سے قبل بھی ہم کشمیر سے یکجہتی کے کتنے دن منا چکے ہیں لیکن ہر سال یہ دن آتا ہے کچھ سرکاری تقریبات اور ٹی وی کے چند گھنٹے کشمیر کے نام کر کے بھول جاتے ہیں لیکن کیا اب کی بار بھی یہی کچھ دہرایا جائیگا جب کہ کشمیر کے حالات یہ ہیں کہ چھے ماہ ہونے کو آئے ہیں دنیا سے کشمیر کے رابطے کو منطقع ہوئے ہوئے موبائل ، انٹرنیٹ ، اخبار ، ٹی وی سب کچھ بند ہے کوئی نہیں جانتا کہ درحقیقت وہاں کے لوگوں پہ کیا بیت رہی ہے۔ اس شدید سردی کے موسم میں ان تک خوراک ، ادویات ، گرم کپڑے ، ایندھن الغرض روزمرہ استعمال کی اشیائ پہنچ رہی ہیں یا نہیں۔ بھارت کے اس ظلم پہ ساری دنیا یوں چپ سادھے ہوئے ہے گویا کشمیری انسان ہی نہیں ہیں۔ ان کا صرف یہ گناہ ہے کہ یہ مسلمان ہیں اور اپنی مرضی سے جینے کا حق مانگ رہے ہیں۔ کشمیر جسے قائد اعظم نے پاکستان کی شہ رگ کہا تھا آج تک مکمل نہیں ہو سکا اور اس کا ایک حصہ آج بھی اپنے حق خودارادیت کیلئے تڑپ رہا ہے۔ 1947ئ میں تقسیم کے وقت یہ طے پایا تھا کہ مسلم اکثریت والا علاقہ مسلمانوں کا اور ہندو اکثریت والا ہندوﺅں کے پاس رہے گا کشمیر کی 85فیصد آبادی مسلمان ہے لیکن بھارت نے انگریزوں کے ساتھ ملی بھگت کر کے کشمیر پر زبردستی قبضہ کر لیا جس روز بھارت نے کشمیر میں فوجیں ا±تاریں چشم فلک نے 5 لاکھ مسلمانوں کا لہو اس جنت کے ٹکڑے پر بہتا دیکھا اور اس دن سے جاری ہونے والا آگ و خون کا کھیل ابھی تک جاری ہے اور نہ جانے ابھی اور کب تک جاری رہنا ہے۔ کشمیری مسلمانوں کو جبر کے زور پر جسمانی طور پر تو غلام بنا لیا گیا لیکن ان کے دل آج تک اس غلامی کو قبول نہیں کر سکے مقبوضہ کشمیر میں آج صرف آگ و خون کی داستانیں رہ گئی ہیں۔ چنار جل رہے ہیں ، جھیلیں لہو رنگ ہیں اور کبھی جو کشمیر جنت نظیر کہلاتا تھا آج اسے بھارتی گھن اس طرح سے چاٹ رہا ہے کہ اب وہاں سسکیوں ، آہوں ، چیخوں کے سوا کچھ نہیں ، بھارت کا چہرہ حقیقت میں ویسا نہیں جیسا باہر کی دنیا میں نظر آتا ہے حقیقت بہت تلخ مکروہ اور افسوس ناک ہے۔ معصوم بے گناہ کشمیری ، مرد و زن اور بچوں کا بہتا لہو اصل میں بھارت کی حقیقت کا رنگ ہے۔ بھارتی فوجی کشمیر کی جانب مکروہ نگاہ ڈالے ہوئے ہیں وہاں بستیاں جل رہی ہیں ، عصمتیں لٹ رہی ہیں ، لہو گلیوں میں رس رہا ہے، زمین کانپ رہی ہے اور آسمان رو رہا ہے۔ آج وہاں کا جوان علم کی تلاش میں نکلنے کی بجائے شہادت کی منزل کی جانب گامزن ہے ، وہاں کی لڑکیاں خواب دیکھنے کی بجائے ماتم کناں نظر آتی ہیں ، وہاں کہ بوڑھے اپنے جھریوں زدہ چہروں کے پیچھے نجانے کتنے درد چھپائے بیٹھے ہیں۔ نریندر مودی نے ساری دنیا کو ایک ایسے بھارت کی پہچان کروائی ہے جو ہر مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے لئے دردناک ہے۔ خود کو سیکولر کہلوانے والے اب حقیقی معنی میں بھارت کو ہندوستان بنارہے ہیں۔ اس کیلئے وہ ہر ظلم ، زیادتی اور نیچ حرکتوں کو اپنائے ہوئے ہیں اور دنیا خاموشی سے تماشا دیکھ رہی ہے۔ ہمارے موجودہ وزیر اعظم عمران خان صاحب بے 5اگست کے بعد بہت دعوے کئے تھے لیکن سوائے تقریروں کے یہ معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ مجھے کہیں ایسی بے قراری دکھائی نہیں دیتی جو کسی اپنے کو تکلیف میں دیکھ کر انسان تڑپ اٹھتا ہے۔ آج کشمیر کو پابند سلاسل دو سال گزر جانے کے باوجود ہر طرف موت کا سا سناٹا ہے۔ جان ہر انسان کو پیاری ہوتی ہے اور یوں لگتا ہے شاید ابھی ہمارے لوگوں کو کشمیر جان سے پیارا نہیں ہوا اس لئے تو وہاں پر ظلم کی انتہا ہے اور یہاں لوگوں کو اپنی پڑی ہے ، ہماری زندگی کے میلے اسی طرح جوبن پر ہیں اور کشمیر کی مٹی سے صدائیں اٹھ رہی ہیں۔ خدارا کشمیر کے لوگ آپکی طرف دیکھ رہے ہیں سب مل کے اپنا حق ادا کریں اور ہر ممکن مدد کو آگے بڑھیں۔