آزاد کشمیر میں قومی سطح پر یوم استحصال کشمیر، ریلیوں کا انعقاد

 ایم وقار عباسی 
waqar051@gmail.com
 بھارت کی برسراقتدار نام نہا د سیکولر جماعت کی جانب سے کشمیر کی حیثیت آرٹیکل 370ختم کرنے کے اقدام کو آج پانچ سال پورے ہوگئے ہیں پانچ اگست کو پارے مقبوضہ کشمیر سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری و پاکستانی اس دن کو  یوم استحصال کشمیر کے طورپر منارہے ہیں ادھر آزاد جموں و کشمیر کی حکومت نے بھی پانچ اگست کو قومی سطح پر یوم استحصال کشمیر منانے کا اعلان کیا ہے اس دن کی مناسبت سے ریلیاںنکالی جائیں گی اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بھی بنائی جائے گی  پانچ سال  سال قبل بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کیا اور مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کو ختم کرکے اس کے گرد عسکری محاصرہ سخت کردیا تھا جو آج بھی جاری ہے۔بلاشبہ یہ دن اقوام عالم کیلیے یاد دہانی ہے کہ آج بھی کشمیر کو آزادی میسر نہیں۔ کشمیر کے لالہ زار اپنی قدرتی سرخیاں کھو رہے اور شہداء  کے خون سے لال ہورہے ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ برسوں سے جاری بھارت کے ظلم و بربریت کے خلاف کئی دن منانے کے باوجود کیا مثبت نتائج سامنے آئے؟ کیا کشمیری مسلمانوں کو ایک دن بھی چین کا نصیب ہوسکا؟بھارت کا مسلمانوں اور خاص طور پر کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ مظلوم کشمیری ظالم کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مودی کی قیادت میں بھارت نے انتہاپسندی کا ایک نیا رخ اختیار کرلیا ہے، بھارت میں صرف مسلمان ہی نہیں، دیگر مذاہب کے پیروکار، یہاں تک کہ نچلی ذات کے ہندو بھی ناروا سلوک کا سامنا کررہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ دنیا بھارت میں جاری مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے ناواقف ہو، لیکن عالمی سیاست اور مفاد پرستی کی عینک عالمی طاقتوں کو چشم پوشی پر مجبور کررہی ہے۔بھارتی وزیراعظم مودی کی انتہاپسند ہندوتوا سوچ سے پوری دنیا واقف ہے۔ اس سوچ کے تدارک کیلئے بھارت کو بے نقاب کرنا اور زیادہ ضروری ہوگیا ہے کیونکہ یہ سوچ صرف بھارتی یا کشمیری مسلمانوں کیلئے ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے امن و سلامتی کیلئے خطرہ بن چکی ہے۔ بھارت میں انسانیت سسک رہی ہے لیکن اقوام متحدہ اور نام نہاد سپر پاورز بھارتی مظالم سے آنکھیں پھیرے ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ کے فورم پر موجود مسئلہ کشمیر تاحال حل طلب ہے۔ گو کہ کشمیریوں پر ظلم و ستم گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے، لیکن آرٹیکل 370 اور 35 اے کے منسوخ ہونے کے بعد سے صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے۔ 5 اگست 2019 کوکشمیریوں پر ظلم کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ آج اس سانحے کو بھی پانچ سال بیت چکے ہیں۔ بھارت آرٹیکل 370 اور شق 35 A کے خاتمے کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے کروڑوں مسلمانوں کی شناخت ختم کرکے اس کو ہندوستان کا حصہ بنانا چاہتا تھا۔ بھارت نے اپنے مظالم ڈھانے کیلئے کرفیو نافذ کیا اور لاک ڈاؤن کرتے ہوئے کشمیری بچوں، بزرگوں، خواتین اور نوجوانوں کا استحصال کیا۔کشمیری اپنے ہی گھروں میں قیدیوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بھارت جبراً کشمیر پر تسلط چاہتا ہے لیکن کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بھارت کے قبضہ سے اپنی وادی کی رہائی چاہتے ہیں، جس کی پاداش میں وہ دنیا کی سب سے بڑی جیل میں زندگی گزار رہے ہیں۔کشمیریوں کے اس لاک ڈاؤن سے دنیا اچھی طرح واقف ہے۔ پاکستان نے مسلسل اس کے خلاف آواز بلند کی۔اورعالمی برادری کو پکارا، کشمیریوں کے خلاف انسانیت سوز بھارتی رویے کی خبریں پہنچتی رہیں، یہاں تک کہ خود بھارت کے اندر سے اس لاک ڈاؤن کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں لیکن دنیا کے تمام طاقت ور ممالک بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں وغیرہ سبھی اس جانب سے نظریں چرائے ہوئے ہیں۔ کبھی کبھار کوئی رسمی سا بیان دے دیتے ہیں، جس سے بھارت کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔جہاں بھارتی سامراج کے ظلم نے آگ بھڑکائے رکھی، وہیں کشمیری عوام کا جذبہ حریت پہلے سے بھی زیادہ دو ٹوک دکھائی دے رہا ہے۔ ہمت اور بہادری کے نشان، آج کشمیر کا ہر گھر محاذ جنگ کی کیفیت میں ہے، ہر گلی میدان جنگ ہے۔  ان کے ارادے عظیم ہیں اور ان کے حوصلے بلند ہیں۔ وہ اپنے ہی خون میں ڈوب کر بھی کشمیر کی آزادی کا جھنڈا لہرا رہے ہیں۔ اگرچہ بھارتی قاتل کشمیر پر اپنے خونی پنجے گاڑ رہے ہیں، لیکن آزادی کشمیر کے ہر سانس سے ''کشمیر بنے گا پاکستان'' کی آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ ہزاروں فوجی اہلکار ہر وقت سڑکوں پر گشت کرتے ہیں اور علاقے میں کسی احتجاج یا اجتماع کی صورت میں فوری کارروائی کرتے ہیں۔ یہ عمل کیا ہے؟ نہتے کشمیریوں کو خون میں نہلایا جاتا ہے، حوا زادیوں کی معصومیت کو پاؤں تلے روند دیا جاتا ہے، کشمیروں کو قید کی سختیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان پر آتش فشاں کی بارش کی جاتی ہے۔ وہاں قائم کیے گئے عقوبت خانے مظالم کو شرما رہے ہیں، جہاںنہتے انسانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کے ہاتھ ہتھوڑوں سے توڑے جاتے ہیں، ناخن نکالے جاتے ہیں، اور ان کے سر اور داڑھی کے بال نوچ لیے جاتے ہیں۔آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے صدر سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان نے کہا ہے 5 اگست کو ''یوم استحصال کشمیر'' کے طور پر منانے کا مقصد نریندر مودی حکومت کی طرف سے 2019ء میں اس دن مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے کیے گئے غیر قانونی اقدامات کے خلاف احتجاج کرنا ہے۔ان اقدامات کے نتیجے میںکشمیر کی منفرد شناخت، ثقافت، روزگار، ڈیموگرافی اور بنیادی حقوق سلب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ 
دنیا بھر میںکشمیری عوام کی جد جہد اجاگر کرنے کے لئے یوم استحصال کشمیر 5 اگست کی مناسبت سے برسلز میں پاکستانی سفارتخانے نے ایک تصویری نمائش کا اہتمام کیا ہے جو ایک ہفتے تک عوام کے لیے جاری رہے گی۔گزشتہ روزبیلجئیم میں پاکستانی سفارتخانہ کی ایکس پر پوسٹ کے مطابق تصویری نمائش مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو درپیش جدوجہد اور مشکلات کی ایک بصری داستان پیش کررہی ہے۔ تصاویر پر مبنی یہ نمائش انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور خطے میں انصاف اور امن کو یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی مداخلت کی فوری ضرورت  پر زور دے رہی ہے۔اس موقع پر سفیر آمنہ بلوچ نے اپنے افتتاحی خطاب کے دوران کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی  کا اظہارکیا۔ ادھرکل جماعتی حریت کانفرنس نے کشمیریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ دفعہ تین سو ستر کی منسوخی کے پانچ سال مکمل ہونے پر پانچ اگست کو ''یوم استحصال کشمیر''کے طورپر منائیں۔حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈووکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر میں ایک بیان میں 5اگست2019کے اقدامات کی منسوخی ، سیاسی رہنمائوں کی رہائی، بھارتی فوج کی طرف سے جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں بند کرانے اورتنازعہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ کیاہے۔

ای پیپر دی نیشن