اسلام آباد ( اپنے سٹاف رپو رٹر سے ) وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے دو معزز جج صاحبان نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے اپنے اختلافی نوٹ میں اہم نکات اٹھائے، مخصوص نشستوں کے معاملے پر اس جماعت کو ریلیف دیا گیا جو درخواست گذار ہی نہیں تھی۔ اتوار کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دو معزز جج صاحبان جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے تفصیلی اختلافی نوٹ جاری کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے کچھ آرٹیکلز مخصوص نشستوں سے متعلق ہیں، مخصوص نشستوں کے حوالے سے فیصلے میں ان آرٹیکلز سے ہٹ کر فیصلہ دیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دو معزز جج صاحبان کے اختلافی نوٹ میں یہ بات بھی درج ہے کہ تحریک انصاف اس کیس میں فریق نہیں تھی، اسے ریلیف دینے کے لئے آئین کے آرٹیکل 175 اور 185 میں تفویض دائرہ اختیار سے باہر جانا ہوگا اور آرٹیکل 51، 63 اور 106 کو معطل کرنا ہوگا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ تحریک انصاف عدلیہ کے سامنے درخواست گذار کی حیثیت سے موجود ہی نہیں تھی لیکن ان کے 81 ممبران کو ریلیف دیا گیا اور وہ لوگ جو مخصوص نشستوں پر منتخب ہو کر آئے اور حلف اٹھا چکے تھے، ان کی رکنیت ختم کر دی گئی۔ ان کی رکنیت ختم کرنے سے پہلے جو مراحلے طے ہوئے، وہ قانونی طور پر اپنی جگہ موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ سنی اتحاد کونسل کے ممبران اگر ایوان میں سنی اتحاد کونسل سے اٹھ کر تحریک انصاف کی صفوں میں بیٹھیں گے تو یہ آرٹیکل 62(1)F کی خلاف ورزی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دو معزز جج صاحبان نے اپنے اختلافی نوٹ میں یہ بھی کہا کہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے بطور سیاسی جماعت عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا ۔ انہوں نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا پارلیمان میں وجود ہی نہیں تھا، ان کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا۔ جب ایک سیاسی جماعت کا پارلیمان میں وجود ہی نہیں تو انہیں مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ تحریک انصاف کو اس کیس میں بن مانگے ریلیف دیا گیا،۔ انہوں نے کہا کہ مخصوص نشستوں پر جو لوگ منتخب ہوئے، ان کی بھی حق تلفی ہوئی ہے، انہیں بھی سنا جانا چاہئے تھا۔ مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے اپنے بیان میں کہا کے کہ مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ آئین سے متصادم اور متنازعہ ہے، دو ججز کا اختلافی نوٹ بار کونسل کی قرارداد اور آئینی ماہرین کی رائے کو ملا کر دیکھا جائے ۔ اسکو پشاور ہائیکورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے متفقہ فیصلے سے ملا کر دیکھا جائے، 12 جولائی کو8 ججز صاحبان کا فیصلہ آئین و قانون سے متصادم ہے۔