پاکستانی خواتین اور سپورٹس

"عورت گھر کی ملکہ" ایک ایسا خوبصورت نعرہ  ہے جس کے ذریعے اہلِ مذہب نے ہمیشہ خواتین کے مختلف حقوق کا استحصال کیا اور اسے گھر کی چار دیواری  سے باہر نہیں نکلنے دیا۔   اسلامی نصوص کی غلط تشریحات کے ذریعے اس کا گھر میں رہنا افضل قرار دے دیا گیا۔ ناقص العقل کی غلط تشریحات کے ذریعے اسے فیصلہ سازی سے الگ کر دیا گیا، ناقص الدین کی غلط تعبیرات کے ذریعے اسیاہم دینی اور حکومتی امور سے علیحدہ کر دیا گیا، جبکہ نازک جسم کی غلط تعبیر سے اسے جسمانی کھیلوں سے دور رکھا گیا۔  حالانکہ اسلامی تاریخ نے ہمیں  ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کو نبی اکرم ؐکے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کرتے ہوئے دکھایا، ام المومنینؓ حضرت ام سلمہ کو تیر اندازی کرتے ہوئے دکھایا،  حضرت نصیبہؓ (ام عمارہ) کو جنگ احد میں حصہ لیتے اور فعال طور پر نبی اکرمؐکے دفاع کے لیے غیر معمولی بہادری اور جسمانی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دکھایا، حضرت خولہؓ  کو گھوڑے کی پیٹھ پر سوار غیر معمولی مہارت سے جنگ کرتے ہوئے دکھایا، انصار کی عورتوں کو جسمانی طاقت اور ورزش کی ماہرہ بتایا، معلمہ کے طور پر معاشرے میں لوگوں کی تربیت کرتے ہوئے اور نرس کے طور پر میدان جنگ میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتے ہوئے دکھایا۔ اگرچہ کھیلوں میں خواتین کی شمولیت کی ایک بھرپور تاریخ قدیم تہذیبوں سے ملتی ہے۔ تاہم، عصرِ حاضر میں اس کا آغاز 1900 کے پیرس اولمپکس میں خواتین کا حصہ لینے جیسے سنگ میل کے ساتھ ہوا۔ بیسویں صدی کے دوران، خواتین نے بتدریج مختلف کھیلوں میں قبولیت اور پہچان حاصل کی، اور اکیسویں صدی میں وسیع پیمانے پر کھیلوں میں شرکت کی۔  پاکستان میں مذہبی انتہاپسندی کی وجہ سے پچھلی کچھ دہائیوں تک خواتین کا کھیلوں میں حصہ لینا حرام سمجھا جاتا رہا اور اس پر باقاعدہ فتوے دیے گئے۔  تاہم، عصرِ حاضر میں خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستانی خواتین اپنی استقامت کے ساتھ روایتی اصولوں کو چیلنج کر رہی ہیں، دقیانوسی تصورات کو توڑ رہی ہیں اور کھیلوں کی دنیا میں اپنی شناخت بنا رہی ہیں۔  وزیرستان سے تعلق رکھنے والی  ماریہ طورپکائی نے لڑکے کا بھیس بدل کر اسکواش سیکھی اور بین الاقوامی سطح پر مقابلہ کرتے ہوئے پاکستان کی سرفہرست خاتون اسکواش کھلاڑی بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ خواتین کرکٹ ٹیم کی سابق کپتان ثناء￿  میر نے خواتین کرکٹ ٹیم کو بین الاقوامی فتوحات تک پہنچایا اور لاتعداد نوجوان لڑکیوں کو متاثر کرتے ہوئے ایک عالمی آئیکون بن گئی۔ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی نرگس ہزارہ نے 2018 کے ایشین گیمز میں کراٹے میں کانسی کا تمغہ جیتا۔  خواتین کی قومی فٹ بال ٹیم کی کپتان ہاجرہ خان نے اس کھیل میں اپنی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور عالمی ریکارڈ بنایا۔ پاکستان کی تیراکی کی "گولڈن گرل" کرن خان نے بین الاقوامی سطح پر مقابلہ کرتے ہوئے کئی ریکارڈ توڑے۔  کوہ پیمائی کی شوقین ثمینہ بیگ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون بنی۔ شاہدہ عباسی نے جنگی کھیلوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر کے متعدد بین الاقوامی تمغے جیتے۔ نسیم حمید 2010 کے ساؤتھ ایشین گیمز میں 100 میٹر سپرنٹ جیت کر جنوبی ایشیا کی تیز ترین خاتون بن گئیں۔ شوٹر منہال سہیل نے 2016 کے اولمپکس میں حصہ لے کر شوٹنگ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ 
اگرچہ اب کافی پاکستانی خواتین کھیلوں میں حصہ لے رہی ہیں لیکن پھر بھی ان کی کامیابیوں کے راستے رکاٹوں سے بھرے پڑے ہیں۔  انہیں کبھی اسلامی تعلیمات کی غلط تشریحات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو کبھی انہیں کھیلوں پر گھریلو ذمہ داریوں کو ترجیح دینے کا کہا جاتا ہے۔ کبھی حفاظتی خدشات یا سماجی ردّعمل کی وجہ سے ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، تو کبھی کھیلوں میں حصہ لینے کے بجائے تعلیم یا شادی پر توجہ مرکوز کرنے پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ کبھی معیاری تربیتی سہولیات، آلات اور کوچنگ تک ناکافی رسائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو کبھی مقابلوں، اسکالرشپس اور پیشہ ورانہ کیریئر کے لحاظ سے مناسب مواقع میسر نہیں ہوتے۔  کبھی جنسی ہراسانی اور بدسلوکی کا خطرہ رہتا ہے، تو کبھی سماجی بے راہ روی اور تنہائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔  کبھی خواتین کے کھیلوں کو فروغ دینے والی موثر پالیسیوں کے فقدان کا سامنا ہوتا ہے، تو کبھی ناقص غذائیت اور ناقص صحت کھیلوں کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہے۔ان رکاوٹوں پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کے کھیلوں کو ترجیح دینے والی ایک جامع قومی کھیلوں کی پالیسی نہ صرف تیار کی جائے بلکہ صحیح طرح نافذ کی جائے۔ خواتین کے کھیلوں کے پروگراموں، سہولیات اور وظائف کے لیے مخصوص فنڈز مختص کیے جائیں۔ خواتین کی شرکت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے، کھیلوں اور جسمانی تعلیم کو اسکول کے نصاب میں شامل کیا جائے۔ اسکول اور یونیورسٹی کی سطح پر کھیلوں میں بہترین کارکردگی دکھانے والی لڑکیوں کے لیے وظائف فراہم کیے جائیں۔ کھیلوں کے فوائد کو اجاگر کرنے کے لیے اسکولوں اور کمیونٹیز میں آگاہی مہم چلائی جائیں۔ کھیلوں کے ایسے مراکز قائم کیے جائیں جو خواتین کے لیے محفوظ اور قابل رسائی ہوں۔ شہری مراکز کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں بھی کھیلوں کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دی جائے ۔ خواتین کھلاڑیوں کی رہنمائی کے لیے خواتین کوچز کا اہتمام کیا جائے۔ خواتین کے کھیلوں کی میڈیا کوریج میں اضافہ کیا جائے تاکہ خواتین کھلاڑیوں کو فروغ دیا جا سکے۔ حوصلہ افزائی کے لیے کامیاب خواتین کھلاڑیوں کی کہانیوں کو نمایاں کیا جائے۔ لڑکیوں کے والدین اور ان کی کمیونٹی کو شامل کر کے ایسے پروگرام تیار کیے جائیں جن سے کھیلوں میں خواتین کی شرکت کی حوصلہ افزائی ہو۔ خواتین کی کھیلوں کی ٹیموں اور ایونٹس کے لیے کارپوریٹ اسپانسرشپ کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ پاکستان میں بہترین طریقوں اور وسائل کو لانے کے لیے کھیلوں کی بین الاقوامی تنظیموں کی شراکت سے تعاون حاصل کیا جائے۔ ثقافتی اور مذہبی اصولوں کی ہم آہنگی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے لباس میں مناسب تبدیلی کی جائے۔ ہراسگی اور بدسلوکی سے نمٹنے کے لیے واضح رپورٹنگ میکانزم قائم کیا جائے۔ خواتین کھلاڑیوں کو چیلنجز اور دباؤ سے نمٹنے میں مدد کرنے کے لیے جسمانی اور نفسیاتی صحت کی معاونت پیش کی جائے۔ قومی اور مقامی سطح پر خواتین کھلاڑیوں کی کامیابیوں کو تسلیم کیا جائے اور انہیں انعام دیا جائے۔ خواتین کے لیے کھیلوں کی انتظامیہ، کوچنگ اور متعلقہ شعبوں میں کیریئر کے مواقع پیدا کیے جائیں۔کھیلوں میں پاکستانی خواتین کا سفر ہمت، لچک اور دقیانوسی تصورات کے خلاف ڈٹ جانے والے جذبے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ زبردست ثقافتی، سماجی اور اقتصادی رکاوٹوں کا سامنا کرنے کے باوجود، انہوں نے روایتی طور پر مردوں کے غلبہ والے میدانوں میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر ان کی کامیابیاں پاکستانی خواتین کے اندر موجود صلاحیتوں کی نشاندہی کرتی ہیں اور یہ ظاہر کرتی ہیں کہ عزم اور حمایت کے ساتھ معاشرتی مجبوریوں کو عبور کیا جا سکتا ہے۔ یہ کھلاڑی خواتین نہ صرف اپنی قوم کے لیے فخر کا باعث بنتی ہیں بلکہ آنے والی نسل کے خواب ٹوٹنے سے بھی بچاتی ہیں۔ کھیلوں میں پاکستانی خواتین کا غیر متزلزل جذبہ نہ صرف دقیانوسی تصورات کو توڑتا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے لامحدود امکانات اور بااختیار بنانے کا راستہ بھی روشن کرتا ہے۔ اب تک جو پیش رفت ہوئی ہے وہ اہم ہے، لیکن باقی ماندہ رکاوٹوں کو ختم کرنے اور ایک ایسے ماحول کو فروغ دینے کے لیے مسلسل کوششوں کی ضرورت ہے جہاں خواتین آزادانہ طور پر اپنے شوق کو آگے بڑھا سکیں۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...